بہار کے جنگی معرکے کو ٹالنے کیلئے طالبان سے مذاکرات ضروری

بہار کے جنگی معرکے کو ٹالنے کیلئے طالبان سے مذاکرات ضروری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


واشنگٹن(اظہر زمان،تجرباتی رپورٹ)افغانستان بہار کے موسم کو جنگ کے لئے بہت ساز گار موقع سمجھا جاتا ہے جس کی آمد کے ساتھ طالبان نے ایک بڑی جنگ شروع کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ان کے مقابل پر افغان فورسز بھی امریکہ اور دیگر اتحادیوں کی پشت پناہی کے ساتھ میدان میں نکلنے کے لئے پر تول رہی ہیں اسی متوقع معرکے اور خون ریزی کو ٹالنے کے لئے اس کے متوازی امن مذاکرات کا آغاز کرنے کی بھی منصوبہ بندی ہورہی ہے اوبامہ اور اشرف غنی کی انتظامیہ اس سلسلے میں طالبان پر پاکستان کے اثر ورسوخ کو استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ افغانستان کے سیاسی حل کے لئے طالبان کو میز پر لایا جاسکے۔اس صورت حال میں افغانستان کے جنگی تھیٹر کے دو اہم اداکار داعش اور القاعدہ ایک مرتبہ زیر بحث ہیں کابل میں موجود ابلاغیات کے حوالے سے نیٹومشن کے ڈپٹی چیف آف سٹاف امریکی بریگیڈئر جنرل چارس کلیو لینڈ نے ٹیلی کانفرنس کے ذریعے واشنگٹن میڈیا کو بنایا ہے کہ افغانستان میں سرکاری فوجوں ے داعش کے ’’نقوش‘‘ کو کافی حد تک کم کردیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں امریکی افواج القاعدہ کے نشانات ختم کرنے کے مشن پر کام کررہی تھی تاہم جنوری 2015ء میں وہاں داعش کے ابھرنے کے سبب اس مشن میں داعش کو بھی شامل کر لیا گیا تھا۔افغانستان کی جنگی صورت حال پر تبصرہ کرتے انہوں نے کہا کہ وہاں داعش کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔اور خصوصاً ننگرہارہیں وہ بہت موثر دباؤ میں ہیں۔بریگیڈئیر جنرل کلیولینڈ کا کہنا تھا کہ تین ماہ قبل داعش چھ سے آٹھ اضلاع میں موجود تھی جبکہ اب اس کا وجود صرف دوتین اضلاع میں باقی رہ گیا ہے۔داعش کے جنگجو پیچھے ہٹتے ہوئے کنہار اور نورستان کے صوبوں اور مزید جنوب میں غزنی کی طرف سے جارہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ اپنے آپ کو بچانے کی جدوجہد میں ہیں بریگیڈیئر جرل کلیولینڈ نے افغانستان میں القاعدہ کی قوت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم جنرل جان نکلیس نے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا ہے کہ طالبان سربراہ ملاعمر کی وفات کے بعد باہمی اختلافات سے اس تنظیم میں جو کمزوری آئی ہے اس کا القاعدہ کو فائدہ پہنچا ہے اور وہ ایک مرتبہ پھر وہاں ابھر رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ داعش کے برعکس القاعدہ طالبان کے ساتھ تعاون کے ذریعے جنگ بڑرہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان اقتدار میں آئے تو وہ القاعدہ کو محفوظ پناہ گاہیں دے سکتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں انہیں اپنے اس منصوبے پر نظرثانی کرنی پڑے گی جس کے تحت افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد کو 2017ء تک ساڑھے پانچ ہزار کرنا تھا۔ان حالات میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا معاملہ زیادہ ضروری ہوگیا ہے جس میں پاکستان کا کردار کلیدی ہے۔امریکہ باربار کہتا ہے کہ وہ ایسے مذاکرات کا حامی ہے جس کی قیادت افغان انتظامیہ کرے۔داعش کی قوت تو افغانستان میں کم ہورہی ہے اور طالبان اور القاعدہ کے اس شدید مخالف ہیں طالبان کے ساتھ معاہدے پر امریکہ پاکستان اور اشرف غنی انتظامیہ سب تیار ہیں۔لیکن طالبان معاہدے کے بعد القاعدہ سے تعاون ختم کریں گے؟ یہ ایک اہم سوال ہے

مزید :

صفحہ اول -