’میں لاہور جانے کے لئے ڈائیوو میں بیٹھی، میری قریبی سیٹ پر ایک لڑکا آکر بیٹھ گیا، جب بس چلی تو اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے اپنا۔۔۔‘ نوجوان لڑکی نے ایسا شرمناک واقعہ سنادیا کہ جان کر ہر پاکستانی کا رنگ شرم سے لال ہوجائے

’میں لاہور جانے کے لئے ڈائیوو میں بیٹھی، میری قریبی سیٹ پر ایک لڑکا آکر بیٹھ ...
’میں لاہور جانے کے لئے ڈائیوو میں بیٹھی، میری قریبی سیٹ پر ایک لڑکا آکر بیٹھ گیا، جب بس چلی تو اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے اپنا۔۔۔‘ نوجوان لڑکی نے ایسا شرمناک واقعہ سنادیا کہ جان کر ہر پاکستانی کا رنگ شرم سے لال ہوجائے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) ہمارے معاشرے میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کا مسئلہ اس قدر عام پایا جاتا ہے کہ گھر سے باہر نکلنے والی شاید ہی کوئی ایسی خاتون ہو جو اس لعنت کا سامنا کئے بغیر گھر واپس آتی ہو۔ اور یہ مسئلہ صرف اس خاتون کا نہیں جو پسماندہ علاقے میں رہتی ہے، ان پڑھ ہے، اپنے حقوق سے آگاہ نہیں، بلکہ پڑھی لکھی، دفتروں میں کام کرنے والی، اور حتیٰ کہ انسانی حقوق کے حوالے سے ممتاز شناخت رکھنے والی خواتین کا بھی ہے۔ انسانی حقوق کارکن عظمیٰ یعقوب کا ویب سائٹ ’ایکسپریس ٹریبیون‘ پر شائع ہونے والا بلاگ یہ جاننے کے لئے کافی ہے کہ جنسی ہراس کا مسئلہ کیسے ہر جگہ اور ہر خاتون کو درپیش ہے۔ 
عظمیٰ یعقوب اپنے ساتھ پیش آنے والے افسوسناک واقعے کے بارے میں بتاتی ہیں ’’گزشتہ ماہ مجھے ایک میٹنگ کے لئے لاہور جانا پڑا اور میں نے اس سفر کے ڈائیوو بس کا انتخاب کیا۔ جب میں ٹرمینل پر بس کے لئے انتظار کررہی تھی تو میں نے اپنے سامنے والی کرسی پر ایک نوجوان کو بیٹھے دیکھا جو بے شرمی سے مجھے گھوررہا تھا۔ میں نے اسے کچھ کہنے کی بجائے اپنی جگہ بدلنا مناسب سمجھا۔ بدقسمتی سے بس میں بھی وہ میرے قریب ہی بیٹھا تھا اور میرے لئے یہاں اپنی جگہ تبدیل کرنا ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔ بہرحال میں نے سوچا کہ یہاں وہ شائستگی سے کام لے گا لیکن میرا اندازہ بہت غلط نکلا۔ بس کی روانگی سے کچھ دیر بعد اس نے اپنا فون نکالا اور یوں ظاہر کرنے لگا کہ وہ کسی سے بات کررہا ہے۔ وہ اپنی تئیں کوئی اور زبان بول رہا تھا لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ میں بھی اس زبان کو بہت اچھی طرح سمجھتی تھی۔ وہ میرے متعلق انتہائی بیہودہ باتیں کررہا تھا اور اپنی جنسی خواہشات کا اظہار کررہا تھا۔ میں نے غصے سے اسے دیکھا تاکہ اسے کچھ حیاء آئے لیکن اس پر کو ئی اثر نہیں ہوا۔ پھر اس نے مزید آگے بڑھتے ہوئے خود لذتی جیسی بے حیائی کا مظاہرہ بھی شروع کردیا۔ اس موقع پر میں نے اس کی خبر لینے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ میری آواز خاصی بلند تھی تو دوسرے مسافروں کی توجہ بھی میری جانب مرکوز ہوئی اور بس اٹینڈنٹ بھی فوری طور پر معاملے کو جاننے کے لئے میری جانب بڑھی۔ جب میں نے اسے اصل بات بتائی تو وہ بیچاری بھی بے بس سی نظر آنے لگی۔ میں سمجھ سکتی تھی کہ اسے خود اکثر ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ بدقسمتی سے مجھے پہلی بار پبلک ٹرانسپورٹ میں جنسی ہراس کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہر بار میں مزاحمت کرتی ہوں، شور مچاتی ہوں لیکن پھر کسی نئی جگہ پر، کسی اور بس میں، کسی اور ٹرمینل پر، کوئی اور شخص یہی سب کچھ کررہا ہوتا ہے۔‘‘
(اس بلاگ کی مصنفہ عظمیٰ یعقوب انسانی حقوق کارکن اور ’فورم فار ڈگنیٹی انیشی ایٹو (ایف ڈی آئی) کی بانی ہیں۔ انسانی حقوق کے میدان میں ان کے غیر معمولی کام کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے 2016ء میں انہیں نیشنل ہیومن رائٹس ایواڈ بھی دیا جاچکا ہے۔)

مزید :

ڈیلی بائیٹس -