ادویات کی قیمتیں کم کرانے میں ناکامی کے بعد تحقیقات؟
وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر ادویات کی مہنگائی کے خلاف جاری مہم روک دی گئی اور ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو قیمتوں میں اضافے کا جائزہ لے گی اور اس کے لئے باقاعدہ ایک فارمولا طے کیا جائے گا اس کمیٹی میں وزیر صحت کا مران کیانی کے علاوہ مشیر تجارت رزاق داؤد کو شامل کیا گیا ہے۔ ادویات ساز کمپنیوں کی طرف سے وزیراعظم کو مہم سے آگاہ کیا اور بتایا گیا کہ کمپنیاں ادویات کی تیاری روک دیں گی۔ وزیراعظم نے اس پر مہم روک دی اور کمیٹی تشکیل دے دی۔ادویات ساز کمپنیوں نے حکومت سے مذاکرات کئے اور یہ طے پایا تھا کہ 15سے 30فیصد تک اضافہ کیا جائے گا لیکن ان اداروں نے جان بچانے والی اور اہم امراض کی ادویات میں اپنی مرضی سے ایک سو سے ایک سو پچاس فیصد تک اضافہ کر لیا تھا اس کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ پہلے ادویات کی قلت پیدا کی گئی اور جب چیخ و پکار ہو گئی تو وہی ادویات زیادہ نرخوں پر مارکیٹ میں لے آئے۔ عوام کے شدید احتجاج پر حکومت کے شعبہ صحت نے گرانی کے خلاف مہم شروع کر دی، ڈرگ سٹوروں پر چھاپے مارے گئے اور جن ادویات کی قیمتیں طے شدہ فارمولے سے زیادہ تھیں ان کو قبضہ میں لینا شروع کر دیا گیا لیکن ڈرگ سٹور مالکان نے احتجاج کیا، تاہم حکومت اور وزیرصحت مصر تھے کہ قیمتیں واپس لا کر چھوڑیں گے۔ اس پر ادویات ساز کمپنیوں نے دھمکی دی کہ ان ادویات کی تیاری ہی بند کر دی جائے گی۔ وزیراعظم نے اسی پر نوٹس لیا ہے، چنانچہ مہم ترک کر دی گئی۔یہ مہم شروع کرنے سے بھی بڑی غلطی ہے کہ یہ سب پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ ادویات ساز ادارے ایسا فیصلہ کر سکتے ہیں اور خصوصاً غیر ملکی ادویات ساز ادارے اپنی ادویات روک سکتے ہیں۔ مہم جاری رہی اور بالآخر ان کمپنیوں کے مالکان نے یہ دھمکی دے ڈالی جو کارگر ہوئی۔ ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ جب تک فیصلہ نہیں ہوتا، تب تک ادویات کے نرخوں کا کیا ہو گا؟ بازار میں اب بڑھائی گئی قیمتوں پر ہی ادویات دستیاب ہیں اور دکاندار خوش ہیں کہ ایک بڑی اتھارٹی کو بھی سرکاری حمائت نہیں مل سکی۔ فارمیسیاں بڑھی ہوئی قیمتوں پر ہی ادویات فروخت کر رہی ہیں۔ حکومت نے اگر یہی کرنا تھا تو مہم شروع کرنے سے بھی پہلے کرنا چاہیے تھا، اب یہ سلسلہ کمیٹی کمیٹی والا نہ ہو، تھوڑے وقت کا کام ہے اس لئے کمیٹی کو فوراً کام شروع کرکے جلد از جلد انجام تک پہنچانا چاہیے ، اور مستقبل کے لئے حقیقی اور یقینی فارمولا کے تحت قیمتوں میں اضافے یا کمی کے فیصلے ہونا چاہئیں۔ قیمتیں 72 گھنٹے میں واپس لانے کی ’’تڑی‘‘ بہرحال بے کار ثابت ہوئی۔