بین الاقوامی حالات و واقعات کا نیا منظر نامہ
امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے اپنے ایک بیان میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا پھیلاؤ امریکی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ ایک امریکی ریڈیو براڈ کاسٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکی سلامتی کو جن پانچ بڑے خطرات کا سامنا ہے ان میں سے ایک پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا پھیلاؤ ہے۔ مائیک پومپیو نے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہاں دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی جاتی ہیں اور یہ کہ پاکستان سے "do more" کا مطالبہ ہے۔
پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دینے کا کام روکے۔ اس سے پہلے بھی امریکی وزیرخارجہ آئی ایم ایف کے ’’بیل آؤٹ پیکیج‘‘ کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ اسلام آباد آئی ایم ایف کے قرض کی رقوم سے چین کے وہ قرضے اتارنے میں صرف نہ کرے جو اس نے چین پاکستان اکنامک کوری ڈور کے منصوبے پر خرچ کرنے کے لئے اٹھائے تھے۔
امریکی وزیر خارجہ کے بیانات کو حالات و واقعات کے پورے پیش منظر اور پس منظر میں رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف سے امداد لے کر چین کے قرضے اتارنے کی بات ویسے ہی لغو ہے۔ اگرچہ ہم آئی ایم ایف ٹائپ کسی ’’بیل آؤٹ پیکیج‘‘ کے حق میں نہیں، کیونکہ ایسے معاہدوں کے نتیجے میں ناخوشگوار شرائط ہی کو قبول نہیں کرنا پڑتا، بلکہ بہت سی اہم دینی و نظریاتی اقدار پر بھی سمجھوتہ کرنا پڑ جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم بار بار آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں، لیکن اس پہلو سے قطع نظر واقعہ یہ ہے کہ چین کے قرضے واجب الادا ہونے کا وقت ابھی آیا ہی نہیں ۔ پاکستان اس کی وضاحت کر چکا ہے۔
پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام بھی امریکہ کی ڈھٹائی ہے۔ امریکہ، بھارت اور یورپی یونین کی جانب سے لگائے جانے والا یہ الزام دراصل ان ممالک کا ایک فیشن بن گیا ہے تاکہ پاکستان ہر وقت دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور رہے ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو امریکہ اور اس کی حلیف قوتیں نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی کا نشانہ بناتی چلی آرہی ہیں۔ پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام سنگین اور توہین آمیز ہے۔ 70 ہزار سے زائد شہادتیں ہماری ہوئیں، اربوں ڈالر کا نقصان ہمارا ہوا، معیشت ہماری تباہ ہوئی، انفراسٹرکچر ہمارا برباد ہوگیا، ہمارے معاشرے کو ہمارے ہی لئے غیر محفوظ بنادیا گیا، ہماری عبادت گاہیں، مدرسے، سکول اور سیکورٹی ادارے دہشت گردی کا نشانہ بنے، معاہدے کے مطابق نہ ہمارے نقصانات پورے کئے جارہے ہیں اور نہ اخراجات کی ادائیگی کی جارہی ہے۔
ان ادائیگیوں کا اعلانیہ انکار بھی کیا جارہا ہے۔ پھر بھی "Do more" کا مطالبہ ہے اور دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام بھی ہم ہی کو دیا جارہا ہے۔ گویا ہم اپنے خلاف خود ہی دہشت گردی کر کے اپنے آپ کو تباہ کر رہے ہیں۔
جناب پومپیو کے بیان کی بازگشت ابھی باقی تھی کہ امریکی صدر ٹرمپ کا ایک مثبت طرز کا بیان سامنے آگیا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات بہت اچھے ہیں اور یہ کہ وہ بہت جلد پاکستان کی قیادت سے ملاقات کریں گے۔ اسی خبر کے ساتھ ایک امریکی عہدیدار کا یہ بیان بھی نتھی ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو آگاہ کر دیا ہے کہ بھارت پر مزید دہشت گرد حملے ہوئے تو انتہائی مشکلات کا سبب بنیں گے اور یہ کہ پاکستان یا تو دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کرے یا پھر عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہے، پاکستان خود فیصلہ کرے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ گویا یہ وہی لاٹھی اور گاجر Stick and Carrot پالیسی ہے۔ امریکہ مستقبل قریب میں پاکستان کے خلاف نئے سرے سے جو کچھ کرنے جارہا ہے ہماری عسکری و سیاسی قیادت کو جس قدر جلد ممکن ہو اس کا ادراک کر لینا چاہیے۔
یہ جو ہمارے سامنے آئے دن نئے نئے اہداف مقرر کر دیے جاتے ہیں کہ ان تک پہنچ کر دکھاؤ، نئے نئے پیمانے مقرر کر دیے جاتے ہیں کہ ان پر پورا اتر کے دکھاؤ۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے۔ بین الاقوامی سیاست کی حرکیات پر گرفت اور دسترس رکھنے والی قوتیں ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت اس منظر نامے کو تشکیل دے رہی ہیں۔ کبھی ہم سے کہا جاتا ہے یورپی یونین سے تجارت کرنی ہے تو ان پیمانوں پر پورا اترو، آئی ایم ایف سے قرض چاہتے ہیں تو یہ شرائط پوری کرو۔
FATF کی گرے لسٹ میں سے نکلنا ہے تو یہ صفات پیدا کرو، پاکستان کے فلاں علاقے میں دہشت گرد چھپے بیٹھے ہیں وہاں بم مار کے دکھاؤ، پاکستان کے دینی مدارس دہشت گرد پیدا کر رہے ہیں، انہیں بند کر و، اگر امریکہ اور اس کی اتحادی قوتیں پاکستان کے کسی علاقے میں خود بمباری یا کوئی اور کارروائی کریں تو خاموش رہو، بھارت اگر پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرے تو اس کے جواب میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تابع داری سے خاموش بیٹھو، بھارت کے خلاف اپنے دفاع کا حق استعمال نہ کرو وگرنہ تمھارے لئے مشکلات اور بڑھا دی جائیں گی وغیرہ وغیرہ۔
کیا ہے یہ سب؟ اگر نیوزی لینڈ کرائسٹ چرچ کے دہشت گردی کے واقعے کو اتفاق سمجھ لیں تو کیا اس کے فورا بعد برطانیہ میں سکاٹ لینڈ، سرے اور برمنگھم کی مساجد میں دہشت گردی کے واقعات بھی محض اتفاق تھے؟
کیا ہمیں اب اس صورت حال کا ادراک نہیں کر لینا چاہیے کہ افغانستان میں امریکہ اور اس کی اتحادی قوتوں کی بری طرح ناکامی کے بعد اب، جبکہ امریکہ وہاں سے بوریا بستر گول کر رہا ہے تو انہی مسلم دشمن قوتوں نے نئے انداز میں دہشت گردانہ واقعات کی ایک نئی لہر کا آغاز کر دیا ہے؟
ابھی مسلمانوں کے خلاف دہشت گردانہ واقعات ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ایک اور نئی لہر اٹھ سکتی ہے جس میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر اسے آسانی کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ وابستہ کر کے مسلمانوں کا دہشت گردانہ رد عمل ظاہر کیا جاسکتا ہے۔
وہ دہشت گردانہ واقعات سائز اور حجم میں موجودہ واقعات سے زیادہ بڑے اور زیادہ خوفناک ہو سکتے ہیں اور اس طرح جن پاکستان دشمن قوتوں کی نظر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر ہے، ان کے لئے اپنے بہت سے ناپاک عزائم اور مقاصد کے حصول کے لئے راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
پلوامہ خودکش حملہ اور اس کے نتیجے میں 44 ہلاکتیں اور 40 افراد کے زخمی ہونے کا واقعہ اور پھر مزید اس کے نتیجے میں بھارتی فضائیہ کا حملہ اور بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی گرفتاری، یہ تمام واقعات ایک نئے سلسلے کی کڑی محسوس ہوتے ہیں۔
حالات کو ایک نیا رخ دینے کے شواہد موجود ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس رخ سے غور کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس مسئلے کو رکھا جائے ،تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے کوئی مشترکہ حکمت عملی اختیار کی جائے کہ ہمیں اس پورے بین الاقوامی منظر نامے میں اپنے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے اور کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔