کوئٹہ میں دہشت گردی

کوئٹہ میں دہشت گردی
کوئٹہ میں دہشت گردی

  

چند دن پہلے کوئٹہ میں سبزی مارکیٹ میں دہشت گردی کا ایک بہت ہی افسوسناک واقع ہوا۔دہشت گردی کے اس واقعے میں دو بچوں سمیت بیس افراد کی جان چلی گئی۔ اس حادثے میں زخمیوں کی تعداد 40 سے زائد ہو گئی۔مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس دھماکے میں دہشت گردی کا شکار وہ برادری بنی  جس کے ارکان کو پہلے بھی بہت بار نشانہ بنایا گیا۔۲۰۱۳ء میں جب کوئٹہ میں دہشت گردی کا واقعے ہوا تھا تو اس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی تھی۔مشہور ٹی وی نیوز چینل الجزائر کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۳ء کے بعد ہونے والے مختلف واقعات میں مرنے والوں کی تعداد ۵۲۹ ہو گئی۔گو کہ اظہار یکجہتی کیلئے ہمارے حکمران گئے مگر ان کے چند گھنٹوں کی صحبت سے سوگوران کے دکھوں کامداوا کسی صورت نہیں ہو سکتا۔

گو کہ پاکستان مذہب کے نام پر وجود میں آیا،مگر پاکستان بننے کے کچھ ہی عرصے میں کچھ طبقات میں مذہب کی محبت کی جگہ فرقہ واریت نے لے لی۔ایران کے ۱۹۷۹ء کے اسلامی انقلاب سے جہاں بہت سے اسلامی ممالک نے انقلاب کو خوش آمدید کہا تھا۔مگرپاکستان کی عوام کو یہ انقلاب قابل قبول نہ تھا۔وجہ صرف فرقہ واریت اور مسالک کی تقسیم تھی۔

ابھی تو قوم ساہیوال حادثے کے رنج و غم کو ہی نہ بھول پائی تھی۔نیوزی لینڈ میں شہید ہونے والے مسلمانوں کے ابھی کفن بھی میلے نہ ہو پائے تھے کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری دہشت گردی کا نشانہ بن گئی،سوچتی ہو اور سوچتی ہی رہتی ہوں کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے لوگوں پرکیا گزری ہو گی۔رنج و الم میں ڈوبے ہوئے کچھ لکھاریوں اورادیبوں نے لکھا کہ کرائسٹ چرچ میں ہونے والے واقعے کی پاکستانی عوام نے تو خوب مذمت کی ،مگر اس واقعے پر امن کا پرچار کرنے والے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

میں نے خود بھی سوشل میڈیا پر دیکھا تھا کہ جب کرائسٹ چرچ کا واقعہ ہوا تھا تو اس وقت سوشل میڈیا پر اس واقعے کی مذمت کی گئی تھی مگر اس واقعے کی کم مذمت کی گئی ۔سوشل ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اس واقعے کی کم مذمت کی گئی۔ایک عالمی نشریاتی ادارے کو انٹریو دیتے ہوئے ہزارہ قبیلے کے متاثرین نے کہابیس سال سے ان پر زیادتی کی جا رہی ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ فوج کی نیت پر انھیں کوئی شک نہیں۔رنج و الم اور سوز و گداز میں ڈوبے قبیلے کو یکھ کر ساغر صدیقی کے یہ اشعار یاد آگئے:

اے ستاروں کے چاہنے والو

آنسوؤں کے چراغ حاضر ہیں

رونق جتن رنگ و بو کے لئے

زخم حاضرہیں،داغ حاضر ہیں

آج بھی ہزارہ قبیلے کے لوگ وطن کی خاطر اپنا تن ،من اور دھن قربان کرنے کو تیار ہیں۔شہید ہونے والوں کا تعلق ایک خاص مسلک سے بتایا جا رہا ہے۔احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جب بھی ان پر اس طرح کی آفت ٹوٹی ہے انھیں امید دلائی گئی،اقدامات کرانے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی،مگر ان اقدامات پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکا۔ماضی میں اس برادری پر انتہا پسندوں نے جو ظلم و بربریت کی داستان رقم کی اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ اس واقعے کے پیچھے انتہا پسند عناصر کار فرما ہیں۔یہ وہ عناصر ہیں کہ جن کے نزدیک مسلک کے نام پر قتل جہاد ہے۔کہ جن کے نزدیک ان کے مسلک کے علاوہ کوئی دوسرا مسلک اختیار کرنا کفر ہے۔آج پاکستانی معاشرہ بہت سے فرقوں میں بٹا ہو ا ہے۔انتہا پسندذہنیت رکھنے والے مفلوج ذہنیت کے لوگ بے گناہوں کی لاشیں گرا کر خود کو غازی سمجھنے لگتے ہیں۔

ہزارہ برادری کی مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف نعرے بازی کی جاتی ہے،ان پر کفر کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔افغان جنگ کے بعدپاکستان میں بہت سی انتہا پسند تنظیموں اور گروہوں کا ظہورہوا۔گو کہ پاکستان کی بہادر فوج کی قربانیوں سے ان تنظیموں کا خاتمہ ہو چکا ہے،مگر اب بھی چند مٹھی بھر لوگ موجود ہیں کہ جو مذہب کے نام پر لوگوں  کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ انسانوں کے شہروں میں جنگل کا کھیل کھیلیں گے اور انھیں کوئی قانون سزا نہیں دے سکتا۔انہی شر پسند عناصر کی وجہ سے کچھ ایسا سماں ہے ؂

نگار معیشت لہو رو رہی ہے

تصور کی عظمت لہو رورہی ہے

شگوفوں کی عزت چھاپے پڑے ہیں

چمن کی لطافت لہو رو رہی ہے

نہ سجدہ نہ سجدوں کی تعبیر ساغرؔ

جبین شہادت لہو رورہی ہے

سوچتی ہوں کہ خدانخواستہ کل کو افغانستان میں دہشت گردی کا واقعہ ہو گیا،الیکشن کے دنوں میں بھارتیوں نے بھارت ہی میں دہشت گردی کر لی تو پوری دنیا میں غیر ملکی پاکستانیوں کو الزام دیتے پھیر یں گے۔یہ میلیٹینٹ اور میلیٹینسی رکھنے والے انتہا پسند ،سرحد پار بھی مطلوب ہیں۔آج کے اس ٹیکنالوجی کے دور میں کسی ملک کے اندردہشت گردی کا واقع ہونا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ اس ملک کے اندر غیر ریاستی عوامل جنہیں بین الاقوامی تعلقات عامہ میں نن سٹیٹ ایکٹر کہا جاتا ہے ،موجود ہیں۔بین الاقوامی تعلقات کے طالبعلم خوب جانتے ہیں کہ جہاں بھی غیر ریاستی عوامل پائے جاتے ہیں،ان عوامل کے غیر ریاستی عناصر سے بھی تعلقات پائے جاتے ہیں۔جس علاقے کو نشانہ بنایا گیا ہے اس کا محل وقوع ایران اور افغانستان سے ملتا ہے۔اور اس علاقے میں جو ہوا اس کی گونج ایران اور افغانستان میں ضرور محسوس کی جائیگی۔پاک فوج نے دہشت گردی کی جنگ میں ہزاروں قربانیاں تھیں۔سیکورٹی فورسز کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کام قابل تعریف ہے۔اگر کوئٹہ جیسے پر امن شہر میں یہ قیامت ٹوٹی ہے تو بڑے شہروں کا کیا ہو گا۔

چند دن پہلے میں عمران خان کا بی بی سی کو دیا ہوا انٹرویو سن رہی تھی ،جس میں خان نے کہا تھا کہ ہم انتہا پسندی کے خلاف بہت سی اصلاحات کریں گے ،اس حوالے سے انھوں نے چند مدرسوں کہ جن میں انتہا پسند عناصر موجود ہیں کی اصلاحات کا بھی ذکر ہے۔ملک میں مٹھی بھر افراد کی وجہ سے ہمارے ہی بھائی محفوظ نہیں۔ملک میں انتہا پسند سوچ کو بندلنا ناگزیر ہے۔کوئی دوسرا ذہن کی مذموم سوچ کو نہیں بدل سکتا۔

نظریاتی اور مسلک کے اختلافات کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے تعلقات خوشگوار نہیں رہے۔اگر ریاست نے ہزارہ برادری کے دکھوں کا مداوا نہ کیا تو امن کے شہر میں دھماکے کرنے والے پاکستان کے خلاف اور بھی زیادہ سازشیں کریں گے۔انتہا پسند جماعتوں کی وجہ سے پاکتسان کی پہلے بھی بہت بار بدنامی ہو چکی ہے۔ایسی جماعتوں نے الیکٹرانک ڈیواسز میں اشتعال پسندانہ مواد محفوظ کر رکھا ہے۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ جب بھی ممبئی میں کوئی دھماکہ ہوتا ہے،پلوامہ میں بھارتی فوجی مارے جائیں،تو اس کا الزام پاکستان کو ہی کیوں دیا جاتا ہے؟جب افغانستان میں خود کش حملہ ہو جائے تو اس کا الزام پاکستانی طالبان کو ہی کیوں دیا جاتا ہے۔وجہ صاف ہے کہ انھیں معلوم ہے  کہ پاکستان میں چند ایک انتہا پسند جماعتیں موجود ہیں کہ جنکی موجودگی سے پاکستانی سرکار بھی انکار نہیں کر سکتی۔

ہماری سرکار کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ کوئی بھی غیر ریاستی عنصر چھوٹا نہیں۔دہشت گردی کرنے والوں نے پوری قوم کا قتل کیا ۔ان کے اس عمل کے پیچھے بہت بڑے محرکات ہیں۔ایسے غیر ریاستی عناصر کا نیٹ ورک ملک سے باہر،سرحد پار تک پھیلا ہوتا ہے۔دنیا میں لبرل انٹرنیشنل تھیوری کے نفاذ کے بعد جہاں ترقی اور تجارت کے لاکھوں مواقع کھلیں ہیں وہیں دہشت گردوں کے جال دوردور تک پھیل جاتے ہیں۔اب وقت آچکا ہے  کہ پاکستانی سرکار ہزارہ برادری کو سیکورٹی فراہم کرئے۔حکومت کی یہ ذمہ داری ہے  کہ وہ ان لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچائے کہ جو رسولﷺ کی امت کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ملک ،مسلکستان بن جائے۔ملک میں ملٹری کورٹس جیسے سخت اقدامات کرنے ہوں گے ،ساتھ میں مذہبی رہنماؤں اور تنظیموں کی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔علماء کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو متحد کریں۔اور عبادات کے ساتھ اخلاقیات اور انسانی اقدار کی تعلیمات کی ترویج کریں۔

۔

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

۔

اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -