مصنف کی دلیل سے اَہم ہے قاری کا مفاد؟
انسان اپنے مفاد کے علاوہ صرف منطق کو اَہمیت دیتا ہے۔ واضح رہے کہ مفاد سے مراد یہاں کسی طلب کا پورا ہونا بھی اور کسی خوف سے چھٹکارا بھی۔ انسان کے مفاد سے یہاں غرض پھر مادی بڑے حصول سے ذرا سی تسکین تک، سب کچھ ہے، مفاد کامطلب یہاں یہ بھی کہ کسی نقصان سے بچ ہی رہنا اور نقصان سے بچنے کا نتیجہ یہ کہ توجہ، توانائی اور وقت کی بچت، پھر ایسی بچت اِس چند روزہ حیات میں بڑا نفع ہی تو ہے ، پھر یہاں مفاد کا مطلب اپنے وسیع ترین مفہوم کے مطابق ہی گویا جس کے بعد مگر کسی بھی انسان کے لئے صرف دلیل کی اَہمیت ہوتی ہے۔
پھر کہیں باغ میں بیٹھے، آپ دُھوپ سینک رہے ہوں اور دو اجنبی پاس آ کر آپ کا کچھ وقت چاہیں۔ اُن میں کہیں کچھ فکری اِختلاف ہو اور وہ آپ سے انصاف چاہیں، آپ راضی ہوں ،وہ اپنا اپنا موقف آپ کے سامنے بیان کردیں۔ اب آپ کو فیصلہ کرنا ہو تو پھر وہ دونوں، جو کہ آپ سے پہلے کبھی نہ ملے تھے اور آئندہ کہیں نہ ملیں گے،اُن کا فیصلہ کرتے وقت آپ یہی دیکھیں گے کہ دلائل کس کے مضبوط اور ناقابلِ تردید ہیں۔۔۔
ہاں، اُن میں کوئی ایک، موقع پر آپ کی جذباتی تسکین کر سکتا ہے، خوشامد وغیرہ لیکن، آپ اگر اپنی اِتنی سی تسکین ، اپنے ایسے ادنیٰ اور عارضی فائدہ کو عدل و انصاف پر ترجیح نہیں دیتے تو پھر انصاف آپ منطق ہی سے کرتے ہیں البتہ ، اُن دونوں میں، کسی ایک کے ہاتھ میں آپ کا کوئی ایسا مفاد ہو جو آپ کو بے حد عزیز ہو تو پھر دوسرے کے دلائل جائیں بھاڑ میں، ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ ۔۔ تو مسئلہ اِس جہان میں یہی رہتا ہے کہ انسان اپنے مفاد کو منطق پر ترجیح دے سکتا ہے، دیتا ہے پھر، دُنیا کے باقی سب مسائل یہیں سے پھوٹا کرتے ہیں ورنہ، یہ نیلگوں سیارہ تو موجودہ انسانی آبادی سمیت مزید کئی ارب انسانوں کو یوں پال پوس سکتا ہے کہ کوئی اِک بھی انسان عمر بھر اِک ذرا بھی محروم نہ رہے ۔
بڑا مسئلہ مگر یہ کہ جس کا بھی سینہ پڑھا جائے وہاں پھر یہی لکھا ملتا ہے، ’’بس، میرا مفاد زیادہ اَہم ! زیادہ قیمتی ، میں! ہاں، میرا حق زیادہ ہی!!! ‘‘ تو ، اَصل بکھیڑا یہی کہ انسان کی قدرو اَہمیت کا ایسا کوئی ایک پیمانہ ہی نہیں کہ جس پر تمام ہی انسان پھر تمام ہی متفق ہوں۔۔۔ فی زمانہ، اور زمانوں سے، اِس زمین پر انسان کی اَہمیت کا سب سے مستند پیمانہ اُس کا ذاتی ایمان ہے۔ پھر، جس کا ایمان جتنا مکمل، سماج میں اُس کی اُتنی قدر و اہمیت۔ ہاں مگر، زمین پر کئی سماج اور ہر بڑے سماج کا خاص اپنا ایمان۔ اَلمختصر، صداقتِ پیامِ خدا سے متعلق کوئی بھی گروہ کسی دوسرے کو خود سے اَہم ہرگز تسلیم نہیں کرتا،کر ہی نہیں سکتا۔گویا ایمان اِس جہان میں انسان کی اَہمیت کا غیر متنازعہ پیمانہ تو پھر کبھی نہیں۔
ایک اور بڑا پیمانہ، طاقت ہے، یعنی، نفع یا ضرر پہنچانے کا اختیار لیکن، یہ اختیار اِدھر سے اُدھر ہوتا رہتا ہے، آج کا وزیر کل محض اِک ووٹر ہو سکتا ہے۔ آج کی سپر پاور کل پھر اَسٹرگلر ہو سکتی ہے تو نری طاقت بھی انسان کی اہمیت کا بہترین پیمانہ نہیں کہ آج کا بہترین کل بدترین ہو سکتا ہے۔ دولت کا حال بھی یہی اور سب سے دولتمند بالعموم بادشاہ ہوتا تھا۔ پھر ، دُنیا کی تاریخ میں ، ایسے بادشاہ بھی کم نہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے دربدر ہوئے اور سدا حکم دینے کے عادی، اِلتجاؤں پر اُتر آئے، حتیٰ کہ بھیک تک مانگا کئے۔ ۔۔ تو پھر، کسی بھی انسان کی اَہمیت کا اَصل اور اَٹل پیمانہ کیا ہے؟
پھر، ایک اور بڑا ہی پیمانہ ہے۔ ہر ہر انسان کی بے پناہ قدر اور سب سے غیرمشروط محبت۔ عظیم اخلاق گویا لیکن، خلیق کے جاتے ہی ، اخلاق ایک اعلیٰ کہانی ، بس۔ عظیم نوشیرواں کیسا بھی عادل ہو؟ حاتم طائی کتنا بھی سخی ہو؟ اُن میں کوئی ایک بھی آج میرے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتا۔۔۔ تو پھر، انسان میں ایسی کون سی صفت ہے، جو انسان کی اَہمیت کی حقیقی اور اَبدی نشانی ہے؟؟؟ تو کیا، بہادری؟ مگر، کتنے ہی انسان ہوں گے ، جو صرف سو سال پہلے یہیں، اِسی زمین پر، جنگوں میں کیسی بے جگری سے لڑ مرے ہوں گے، جن میں بیشتر کے نام بھی آج فراموش ہو چکے ہیں۔ پھر، طرفہ تماشا، ایک طرف کا بہادر دوسر ی طرف ظالم کہلاتا ہے۔ نہیں! ایک انسان کی اہمیت کا غیر متنازعہ پیمانہ ، کچھ اور ہی۔۔۔
قصہ مختصر، وہ وقت دُور نہیں جب نسلِ انسانی یہ بھی سمجھ لے گی کہ جتنے زیادہ اور جتنے خطرناک ہتھیار بنتے جاتے ہیں، اب سنجیدگی کی ضرورت بھی اُتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔۔۔ اور، سنجیدگی کا تقاضا ہے کہ نسلِ انسانی خود انسانی اَہمیت کا وہ پیمانہ طے کر دے کہ جس پیمانہ کی اپنی اَہمیت سے کوئی بھی انسانی فرد انکار کر ہی نہ سکے۔ مگر، کیا یہ ممکن ہے؟ (ہاں، یہ عین ممکن ہے!) پھر، آتے وقت میں خوب روشنی اور خوشبو ہے، اِسی زمین پر۔ نسلِ انسانی کا مستقبل انتہائی تابناک ہے!
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔