پاک بحریہ میں موجود پراسرار آبدوز جس کے بارے میں لوگوں کو معلوم نہیں
کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی اخبار فوربز نے پاک بحریہ کے پاس ایک ایسی پراسرار آبدوز کے بارے میں انکشاف کیا ہے جس کے بارے میں دنیا میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ فوربز پر اپنے آرٹیکل میں حربی امور کے ماہر ایچ آئی سوٹن لکھتے ہیں کہ دنیا میں کچھ ایسے راز ہیں جو انتہائی کامیابی سے مخفی رکھے جا رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت وہ سب کی نظروں کے سامنے ہوتے ہیں اور کسی کو معلوم نہیں ہو پاتے۔ پاک بحریہ کی یہ آبدوز بھی ایسا ہی ایک راز ہے جس کا تذکرہ دنیا کی کسی ریفرنس بک میں نہیں ملے گا حتیٰ کہ میری کتاب ’ورلڈ سب میرینز کوورٹ شورز ری کگنیشن گائیڈ‘ میں بھی اس آبدوز کا ذکر نہیں ہے جس میں دنیا بھر کی آبدوزوں کی تفصیل دی گئی ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، یہ پہلا آرٹیکل ہے جس میں پاکستان کی اس آبدوز کا ذکر ہونے جا رہا ہے۔ یہ آبدوز ’سمال سپیشل فورسز ٹائپ‘ ہے جس کی لمبائی 55فٹ اور چوڑائی 7سے 8فٹ ہے۔
ایچ آئی سوٹن مزید لکھتے ہیں کہ ”آبدوزوں کی اس قسم کو پاکستان نیوی میں ’ایکس کرافٹ‘ کہا جاتا ہے۔ پاک نیوی نے یہ اصطلاح اطالوی مینوفیکچررCos.Mo.S(Commonly written Cosmos)سے اخذ کیا ہے جس سے پاک بحریہ نے ماضی میں مڈگیٹ سب میرینز کے دو سیٹ خریدے تھے۔امریکہ میں ’ایکس کرافٹ‘ کا متبادل لفظ ’ڈی سی ایس‘(Dry Combat Submersible)استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اطالوی مینو فیکچرر 20سال قبل پروڈکشن بند کر چکا ہے اور اب اس کے ڈیزائن ایک اور اطالوی مینوفیکچرر ڈراس (Drass) بنا رہا ہے۔ پاکستان کے پاس جو یہ پراسرار آبدوز ہے اس کا ڈیزائن بظاہر ڈراس کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ ڈراس کی سب سے چھوٹی آبدوز ڈی جی 85ہے جو پاک بحریہ کے پاس موجود اس آبدوز سے قدرے بڑی ہے۔ اس آبدوز کے متعلق ایک اشارہ 2016ءمیں ملا۔ پاکستانی دفاعی پیداوار ڈویژن کی طرف سے اپنی ایئر بک 2015-16میں 01مڈگیٹ سب میرین کی مقامی سطح پر پیداوار کے متعلق بتایا گیا۔ بتایا گیا کہ 2016-17ءمیں اس کی پیداوار شروع ہو جائے گی۔ اس کے بعد ایسی رپورٹس بھی آتی رہیں کہ ترک کمپنی ’ایس ٹی ایم‘ پاکستان کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر ایک چھوٹی آبدوز بنارہی ہے۔بہرحال حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ پاک نیوی کے پاس یہ آبدوز کہاں سے آئی اور اس آبدوز کے آپریشنل سٹیٹس کے متعلق بھی کچھ واضح نہیں ہے۔سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر میں اس آبدوز کو پاک بحریہ کے بیڑے پی این ایس اقبال پر دیکھا گیا ہے۔ اسے مرمت کی غرض سے بیڑے پر لایا گیا یا اسے ابھی تک پانی میں اتارا ہی نہیں گیا، یہ بات بھی تاحال ایک راز ہے۔“