ماضی اور حال کے رمضان کا موازنہ؟

ماضی اور حال کے رمضان کا موازنہ؟
ماضی اور حال کے رمضان کا موازنہ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ماضی سب کو عزیز اور اچھا لگتا ہے۔ آج کے دور میں تو ہم جیسے پرانے لوگ بار بار اپنے بچپن، لڑکپن اور جوانی کے ادوار کا ذکر کر کے خود کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔آج رمضان المبارک کا دوسرا روزہ ہے۔ اللہ توفیق و صحت کے ساتھ  ارادہ اور ہمت عطا فرمائے تو انشاء اللہ یہ بھی سابقہ رمضان المبارک کے مہینوں کی طرح پورا ہوگا اور روزے بھی مکمل ہی ہوں گے۔ رمضان المبارک ہی کے حوالے سے ہمیں ماضی یاد آتا اور ہم بیٹھے بیٹھے تصوراتی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں، جب رمضان کا مہینہ حقیقتاً عبادت کا ہوتا اور آج کی طرح لوٹ مار نہیں ہوتی تھی، ایک سے زیادہ بار عرض کر چکا ہوں کہ میری پیدائش اور حقیقی پرورش اندرون شہر لاہور کی ہے اکبری دروازہ کے محلہ باغیچی صمدو میں پیدا ہو نے والا یہ عرضی نویس، اخبار نویس بنے گا کبھی وہم گمان بھی نہیں تھا، دادی جان کی معصوم خواہش بڑا افسر دیکھنے اور والد صاحب کی تمنا تھی کہ فوجی بن جاؤں، اس میں سے کچھ بھی نہ بن سکا البتہ تایا جان کی دعا سے مستری ضرور بن گیا کہ شعبہ ڈیزل کے دو کورس مکمل کئے اور اس کے لئے جام شورو کے ارتھ موونگ ٹریننگ سکول نے بازو وا کئے، یہ سکول کولمبو پلان کے تحت تربیتی ادارہ بنا، جہاں تھیوری اور عملی تربیت بھی دی گئی، اساتذہ امریکہ، برطانیہ وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے جبکہ اپنے ماہرین بھی ہنر سکھانے کے لئے موجود تھے پھر بات یہاں نہ رکی، مزاج اور طبیعت کے میلان نے بالآخر 1963ء میں اس راہ پر ڈال ہی دیا جس میں اب عمر ہی بیت چلی ہے۔


یہ تو ذکر برائے ذکر ہے، تاہم بات کرنا تھی ماہ رمضان المبارک کے حوالے سے اس دور میں جب ہم بچے تھے اور تقسیم کا عمل نہیں ہوا تھا، محلے داری اہم حیثیت رکھتی تھی، میری تعلیم کا آغاز بھی عربی قاعدہ کے ساتھ محلے کی مقامی مسجد سے ہوا، جہاں ہمارے امام صاحب درویش صفت تھے، وہ ہر جمعرات کو اکبری دروازہ سے پیدل چلتے اور اندرون شہر کے راستوں سے ہوتے ہوئے مزار داتا گنج بخشؒ پہنچتے، راستے میں جتنے بھی مزار پڑتے وہاں فاتحہ خوانی کرتے جاتے تھے، وہ ایسے درویش تھے کہ سر جھکا کر چلتے اکثر ان سے کوئی نہ کوئی ٹکرا جاتا اور ان کے منہ سے بے ساختہ نکلتا ”السلام علیکم“ چاہے، ان کی رگڑ کسی بھینس ہی سے کیوں نہ ہو جاتی۔ میں اور میرے ساتھی انہی بزرگوں سے الحمد شریف سے والناس تک پڑھے اور اسی کی بدولت ہم سب بچے شوق سے دینی فرائض میں حصہ لیتے رہے، نماز اور روزہ بھی اسی میں شامل ہے، لیکن یہ بھی ایک دلچسپ قصہ ہے کہ ہمارے والدین کس ترغیب سے ہمیں روزہ رکھنے پر مائل کرتے رہے جب ہم بچے ضد کرتے کہ ہم نے روزہ رکھنا ہے، کیونکہ افطار کے وقت تو سب جمع ہوتے ہی تھے تو والدین منع نہیں کرتے تھے۔ وہ ہمیں کہتے ’چڑی روزہ‘ رکھ لو، جیسے چڑیا روزہ رکھتی ہے کہ وہ اڑتی پھرتی ہے، لیکن پیاس کے وقت چونچ سے پانی پی لیتی ہے۔

تو آغاز ایسے ہی چڑی روزہ سے ہوا، پھر مجھے یاد ہے کہ پہلا روزہ شدید گرمی کے موسم میں رکھا اور دن میں کئی بار نہا کر نبھایا۔ افطار ہماری چھوٹی سی مسجد میں کرائی گئی جو سادہ سی ہی تھی۔ آج کے نوجوان اور بچے حیران ہوں گے کہ اس دور میں رمضان المبارک کے روزے سحر اور افطار کے لحاظ سے خصوصی ضرور ہوتے لیکن سادہ ہی رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ سحری کے وقت دادی جان جلدی اٹھا کر برتن اور پیسے تھما دیتیں کہ جاؤ دہی لے کر آؤ، ہمارے بازار میں چار دکانیں چاچا رفیع، چاچا صوبی، چاچا گجر اور دوست پرویز (پُچا) کی ہوتی تھیں۔ اس دور میں دہی تول کر نہیں دی جاتی تھی، پاؤ، آدھ سیر کی آواز ضرور آتی لیکن چاچا حضرات بلا تولے برتن میں ڈالتے، جلدی اس لئے جانا ہوتا تھا کہ ہر دکان پر دہی لینے والوں کے برتن ایک ترتیب سے آگے پیچھے رکھ دیئے جاتے، چاچا حضرات کے سامنے جو برتن آتا، اس کو لانے والا لڑکا یا بندہ پکارتا، چار آنے، آٹھ آنے کی دہی دینا اور چاچا پیسے گلے میں ڈال کر دہی برتن میں ڈال دیتا، عمومی سحری پراٹھے اور دہی کی ہوتی، دہی میں شکر استعمال کی جاتی، اسی طرح افطار کے لئے تخم ملنگاں اور کتیرہ گوند بھگوئی جاتی اور اسے دودھ میں چینی ڈال کر لذیذ بنا لیا جاتا، یہ ملغوبہ سب پیتے کہ اس سے گرمی کٹتی اور پیاس بجھتی تھی۔ پھر یہ مقوی بھی گنا جاتا اس کے بعد گھر میں جو پکا ہوتا وہ کھایا جاتا اور پھر تراویح کے لئے مسجد بھیج دیا جاتا تھا۔


جہاں تک ہم ساتھیوں کا تعلق ہے تو ہم سب اپنے بچپن میں تخم ملنگاں، کتیرہ گوند اور صندل کے شربت کی چھوٹی چھوٹی دکانیں اپنے محلے میں گھروں کے باہر لگاتے تھے اور اپنے جیسے لڑکوں ہی کو ایک پیسے دو پیسے کے عوض پلاتے تھے۔ اس کے علاوہ ہماری بڑی دلچسپی برف کے گولے کھانے سے تھی جو برف رگڑ کر بنائے جاتے اور اس برف پر شربت ڈالا جاتا۔ پھر جب ہم بڑے ہوئے اور سکول (ہائی) جانے لگے تو سحری کی ٹولیوں کا دور آ گیا تھا، ہم دوستوں نے مل کر بھی ایک ٹیم بنائی اور صبح اٹھ کر سحری کے لئے جگانے جاتے، یہ سب ٹولیاں نعتیں پڑھتے جاتی تھیں، آج جب میں پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہوں تو سب خواب محسوس ہوتا ہے کہ خالص دیسی گھی کے پراٹھے، دودھ دہی بھی ملاوٹ سے پاک، البتہ کبھی شکائت ہوتی تو دودھ پتلا ہونے کی ہوتی۔ گاہک کا شکوہ کہ پانی ملایا گیا، دودھ والے کا عذر کہ چارہ سبز ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا،آج دیکھتا ہوں تو پریشان ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو گئی، مہنگائی نے دم خم نکال دیئے اور افطار و سحر بھی سادہ اور غذائیت سے بھرپور نہیں، فیشن ایبل ہوتی ہے۔ میں تو پرانا بندہ ہوں اس لئے سادہ ہی کام چل رہا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -