والدِ محترم سیّد علمدار حسین گیلانی کی یاد میں!
میرے والد محترم سیّد علمدار حسین گیلانی نے اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا اورآل پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ جب وہ ایف۔اے کے طالب علم تھے تو انہوں نے اپنے بزرگ سیّد زین العابدین شاہ اور مسلم لیگ ضلع ملتان کے صدر چچا مخدوم غلام نبی شاہ گیلانی کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کے لیے کام کیا۔والد صاحب اپنے گھر 'الجیلان' کو خوش بختی اور ملتان کی سیاست کا محور سمجھتے تھے کہ اس گھر میں گورنر جنرل غلام محمد، خواجہ ناظم الدین، وزارئے اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور ملک فیروز خان نون کے علاوہ محترمہ فاطمہ جناح اور سردار عبدالرب نشتر اور راجہ غضنفر علی جیسی نامور شخصیات تشریف لا چکی تھیں۔ علاوہ ازیں پیر صاحب اجمیر شریف بھی اس گھر میں تشریف لا چکے تھے۔1951ء کے عام انتخابات میں والد کے نامزد اُمیدواروں کو مسلم لیگ کے ٹکٹ دیئے گئے۔ ان انتخابات کے سلسلے میں مسلم لیگ کا کنونشن ہمارے گھر میں ہوا جس کی صدارت وزیر اعظم پاکستان اور صدر مسلم لیگ نوابزادہ لیاقت علی خان نے کی۔ جلسے کے دوران وزیراعظم نے والد، تایا ولایت حسین اور چچا رحمت حسین کے ہاتھ تھام کر کہا:''They are the backbone of the Muslim League''(یہ مسلم لیگ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں)۔والد گرامی کا قول تھا کہ اگر کسی شخص کے ہاتھ میں شفا ہونے کے باوجود وہ کسی دوسرے شخص کو فیض یاب نہیں کرتا تو ایسا شخص خود بدنصیب ہے۔ والد کی یادداشت کمال کی تھی۔
اُنہیں ہزاروں لوگوں کے نام زبانی یاد تھے اور جب کبھی کسی تقریب میں لوگوں کو مدعو کرنا ہوتا تو بہت ہی کم وقت میں اپنی یادداشت سے لوگوں کے نام تحریر کروا دیتے تھے۔والد صاحب نے ہمیں اپنے وزیر بننے کا واقعہ یوں سنایا کہ ایک مرتبہ مَیں وزیراعلیٰ پنجاب فیروز خان نون سے ملنے اُن کے گھر گیا کہ تمہارے نانا مخدوم الملک سیّد غلام میراں شاہ سے اچانک ملاقات ہو گئی۔ مَیں نے اُن سے دریافت کیا کہ آپ کیسے تشریف لائے؟ انہوں نے بتایا کہ مَیں سردار محمد خان لغاری (سردار فاروق احمد خان لغاری کے والد) کو صوبائی وزیر بنوانے آیا ہوں۔ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ انہیں لغاری صاحب کے علاوہ میری بھی سفارش کرنی چاہیے تھی۔ جب میری ملاقات نون صاحب سے ہوئی تو انہوں نے کہا کہ تم وزیر اعلیٰ پنجاب ہو اور مجھے اپنی کابینہ بنا کر دو۔ مَیں نے کہا کہ مَیں وزیراعلیٰ نہیں ہوں، آپ ہی ہیں اور یہ استحقاق بھی آپ ہی کا ہے۔ مگر وہ بضد تھے کہ کابینہ مجھے ہی بنانی ہے۔ مَیں نے کابینہ کے لیے پانچ نام تجویز کیے جن میں سردار محمد خان لغاری، رانا عبدالحمید، مظفر علی قزلباش، چوہدری علی اکبر اور شیخ مسعود صادق کے نام شامل تھے مگر جب کابینہ کا اعلان ہوا تو ایک نام کا اضافہ تھا اور وہ نام میرا تھا۔والد محترم نے 1953ء میں فیروز خان نون کی کابینہ میں بطور وزیر صحت و بلدیات حلف اٹھایا۔ والد صاحب نے وکٹوریہ ہسپتال، بہاولپور میں ایل ایس ایم ایف میڈیکل سکول کی بنیاد رکھی۔ میٹرک کے بعد اس سکول میں تین برس کا میڈیکل کورس کروایا جاتا تھا جس کے بعد دو برس تک دیہی علاقے میں خدمات انجام دینے کی لازمی شرط پوری کرنے پر متعلقہ اُمیدوار ایم بی بی ایس کے امتحان دینے کا اہل قرار پاتا تھا۔ ماموں مخدوم زادہ سیّد حسن محمود اس دور میں بہاولپور ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔
انہوں نے اس نیک کام کے لیے بنیادی ضروریات بہم پہنچائیں اور یوں ایک دردمند دل کی انقلابی سوچ نے نہ صرف دیہی علاقوں میں طبی سہولیات مہیا کر دیں بلکہ ملک میں ڈاکٹروں کی شدید کمی دور کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ملک میں اس پالیسی کے تحت سینکڑوں ڈاکٹروں نے اپنی اعلیٰ قابلیت اور خدمات کی بدولت بڑا نام کمایا۔ 1953ء میں والد محترم کے پارلیمانی سیکرٹری چوہدری فضل الٰہی تھے جو بعد میں صدرِ پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سردار عطا محمد خان لغاری محکمے کے سیکرٹری تھے جو بعد میں رکن صوبائی اسمبلی (ایم پی اے) منتخب ہوئے۔ والد کو اس حیثیت سے بھی یاد رکھا جاتا ہے کہ صوبائی وزیر صحت و بلدیات بننے پر 1954ء میں انہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروائے۔ انہوں نے کوشش کی کہ ہر ضلع میں ایک لائبریری ہو تاکہ عوام کی کتابوں تک رسائی ممکن بنائی جا سکے۔
اس سلسلے میں قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان میں ایک وسیع میونسپل لائبریری کا افتتاح کیا جو ملتان کے لیے ایک عظیم علمی خزانہ ہے۔ والد کچھ عرصہ امپروومنٹ ٹرسٹ (موجودہ وزارتِ ہاؤسنگ) کے صوبائی وزیر بھی رہے۔ والد صاحب نے اپنے بھائیوں مخدوم ولایت حسین گیلانی، مخدوم سیّد شوکت حسین گیلانی اور مخدومزادہ سیّد فیض مصطفی گیلانی کے ساتھ مل کر 'انجمن اسلامیہ' ملتان کے لیے بھرپور کام کیا۔ جس کے تحت ان کی زندگی ہی میں کئی سکولوں اور کالجوں کا قیام عمل میں آیا۔ انجمنِ اسلامیہ کی چند تعلیمی یادگاریں گیلانی لاء کالج، ولایت حسین اسلامیہ کالج، علمدار حسین کالج، اسلامیہ ہائی سکول حرم گیٹ، اسلامیہ ہائی سکول عام خاص باغ اور اسلامیہ ہائی سکول دولت گیٹ ہیں۔والد گرامی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ 1956ء کا آئین بنانے والوں میں شامل تھے۔
اکتوبر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا اور 1956ء کا آئین معطل کر دیا۔ 'تحریک پاکستان' کے کارکنوں اور چوٹی کے سیاستدانوں کو اَیبڈو کے ذریعے نااہل کر دیا گیا۔ اس بدنامِ زمانہ قانون کی زد میں آنے والوں میں حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، آئی آئی چندریگر، فیروز خان نون، خان عبدالقیوم خان، محمد خان لغاری، کرنل (ر) عابد حسین، سیّد حسن محمود، ایوب کھوڑو، پیر الٰہی بخش، جی ایم سیّد، قاضی علی اکبر، قاضی عیسیٰ اور کئی دیگر رہنماؤں کے علاوہ میرے والد بھی شامل تھے۔ ایوب خان نے اَیبڈو کے ذریعے بیک جنبشِ قلم سب کو بد دیانتی کے بلا ثبوت الزام کے تحت نااہل قرار دے دیا اور یوں سیاست کے میدان میں صفِ اوّل کے رہنماؤں کو پیچھے دھکیل دیئے جانے سے ایسا خلا پیدا ہوا جس نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔
مجھے زمانہء طالب علمی ہی سے والد لاہور کے اپنے چیدہ احباب سے روشناس کرواتے رہے جن میں صاحبزادی محمودہ بیگم، ملک محمد اختر، چوہدری یوسف علی اور سیّد شبیر شاہ (ایم این اے میجر (ر) تنویر حسن سیّد کے والد) قابلِ ذکر ہیں۔والد صاحب ہمیشہ تین رمضان المبارک کو اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کرتے اور کہتے کہ یہ بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وصال کا دن ہے۔ اُس دن اپنے دوستوں کو مدعو کرتے اور اُس دن کی مناسبت سے احباب کو تبرک کھلاتے تھے۔ زندگی بھر انہوں نے اس روایت کو نہایت محبت و شوق سے نبھایا۔ اتفاق ہے کہ وہ اسی دن یعنی تین رمضان المبارک مورخہ 9 اگست 1978ء کو نشتر ہسپتال، ملتان میں انتقال کر گئے۔ اِنّا لِلّٰہِ و اِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُون۔
والد باقاعدگی سے ڈائری لکھا کرتے تھے۔ اپنی وفات سے ایک روز قبل انہوں نے ڈائری میں احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر لکھا:
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
آج والد صاحب کو ہم سے بچھڑے 43 برس ہو گئے اور ان کے یومِ وفات پر مَیں انہی کی روایات پر عمل کرتے ہوئے 3 رمضان المبارک کو دوستوں کو زحمت گزشتہ سال تک دیتا تھا، ان کی افطاری کرواتا اور اُن کے درجات کی بلندی کے لیے دُعا کی جاتی لیکن اس سال بھی کرونا کی وجہ سے مَیں نے اپنے احباب سے گزارش کی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر والد صاحب کے بلندی درجات کے لیے دُعا کریں اور انشاء اللہ اگلے سال زندگی رہی تو یہ سلسلہ ایک مرتبہ پھر ویسے ہی شروع ہو جائے گا۔