ایک یونیورسٹی میں ایک طالب علم کا زبانی امتحان بہت اچھا ہوا۔اُس نے تمام سوالوں کے تسلی بخش جواب دیئے۔ جب نتیجہ آیا تو فیل قرار دے دیا گیا۔ دُکھی طالب علم کو پوچھنے پر بتایا گیاسب کو کامیاب تھوڑا ہی کرنا ہوتاہے، کسی نہ کسی کو فیل کرناتھا،سو اُس کو فیل کر دیا گیا۔ ایک تعلیمی ادارے کے ہوسٹل میں ایک دن ایک سینئر اپنے جونیئرسے کہنے لگے ”یار تم مجھے اپنی شکل نہ دکھایاکرو“۔جونیئرنے حیرت سے وجہ پوچھی تو جواب ملا”وجہ تو مجھے بھی پتہ نہیں بس تمہیں دیکھ کر مجھے غصہ آنے لگتا ہے“۔ حسد کی مثال بھی اسی طرح ہوتی ہے کہ بعض اوقات حاسد کو بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ حسد کیوں کر رہا ہے؟
سیف زمانہ حاسد کیوں ہے
دکھ سہنے غم کھانے پر بھی
حاسدوں کاجدامجدشیطان ہے۔حسد کرنا اُسی کی پہچان ہے۔ انسان کی تخلیق کے بعد پہلا گناہ جو کیا گیا وہ حسد تھا اور پہلا حاسد شیطان تھا۔جس سے حسد کیا جا رہا تھا وہ انسان تھا اور اپنے حاسد سے انجان تھا۔حضرت آدمؑ سے لے کے آج تک کے انسان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے حاسد سے انجان رہتا ہے۔بدقسمتی سے ہرانسان کے ارد گرد کوئی نہ کوئی حاسد شیطان رہتا ہے۔بعض کے اردگردتواتنے حاسد ہوتے ہیں کہ وہ بے ساختہ کہہ اُٹھتاہے:
ان حاسدوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے میری ذات کے ریگزار میں
حاسد کا نہ صرف ہر عمل بلکہ اس کے ذہن میں آنے والا ہر خیال بھی فاسد ہوتا ہے۔کئی لوگ حسد کرنے کے عجیب وغریب بہانے تلاش کرلیتے ہیں۔ حاسد درحقیقت اپنی اناسے مجبور ہوتا ہے۔ بغیر کسی وجہ کے حسد کی رسدحاسد کوہرلحظہ مہیاہوتی رہتی ہے۔ حاسد اپنا اوردوسروں کا وقت فاسد کرنے میں یدطولیٰ رکھتا ہے۔زمین پر پہلا قتل حسدکی وجہ سے ہوا۔ایک بھائی دوسرے بھائی سے حسد کرنے لگااورشیطان کی گرفت میں آکر اپنے ہی بھائی کا قاتل بن بیٹھا۔ ہر حاسد شیطان کا قاصد ہوتا ہے اور اپنے معاشرے کے لیے فاسد ہوتا ہے۔ ہر آگ جلاتی ہے مگر حسد کی آگ جیسی تاثیرکسی اور کی نہیں۔ یہ جلاتی بھی ہے، تڑپاتی بھی ہے، ستاتی بھی ہے اور ہر لحظہ سلگاتی بھی ہے۔ باقی ہر خواہش بجھاتی بھی ہے۔ زندگی تو رائیگاں کر ہی دیتی ہے آخرت بھی برباد کر دیتی ہے۔اُردو ادب کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قاصد کے ہاتھ پھر بھی کچھ آجاتا ہے۔دنیا کی تاریخ مگر شاہد ہے کسی حاسد کے ہاتھ کبھی بھی کچھ بھی نہیں آیا۔حاسد کسی بھی شعبہ زندگی کے افراد کیلئے اپنے دل میں رحم کا کوئی ذرہ تک نہیں رکھتے مگر ہمارے شاعراس معاملے میں تاریخی طور پر بہت زیادہ بدقسمت ثابت ہوئے ہیں۔اُن کے رازداراورقاصدہی اکثراُن کے حاسد اوررقیب بن جاتے تھے وہ پھرحسد اوررقابت کی انتہا کر دیتے تھے۔ہر کوئی فیضؔ صاحب نہیں بن سکتا، جن کو اپنے رقیب پر بھی پیار آتاتھا۔زیادہ تر شاعر تو عمر بھرحاسدوں اور رقیبوں کے ہاتھوں خوار ہوتے رہے۔میرؔ کو سوتیلے بھائی کے حاسدانہ رویے کی وجہ سے خاندان بھر کی دشمنی برداشت کرنی پڑی۔حالات کی ستم ظریفی اُن کیلئے ناقابل برداشت ہوگئی اور وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے۔ مرزااسداللہ خان غالبؔ حاسدوں کی غلط اطلاعات کے باعث قمار بازی کے جرم میں قید ہوئے۔ علامہ اقبالؔ کے مخالفین اورحاسدین نے بھی اُن کی کردار کشی کی پوری کوشش کی۔حاسدآج تک یہ کوشش کررہے ہیں کہ عطیہ فیضی، آیما ویگے ناست اور گلوکارہ امیر بیگم کے ساتھ اُن کی شناسائی کو آشنائی کا روپ دیاجائے۔اقبال ہمیشہ سے الزامات کی زد میں رہے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں حاسدین کے شرسے محفوظ رکھااوراُن کوہمارے معاشرے میں وہ مقام حاصل ہے جس کے وہ بجاطور پرحقدار ہیں۔اُن کی شاعری قرآنی تعلیمات کے عین مطابق ہے اورہمیں اچھا مسلمان بننے میں مدد دیتی ہے۔ بعض شاعر بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ کئی ناقد بھی درحقیقت حاسد ہی ہوتے ہیں:
ایک حاسد کی ایک ناقد کی
سر پر دو تلواریں لٹکتی ہیں
صوفیائے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر ناخوش ہونے والا انسان ہی حاسد ہوتا ہے۔اُردو محاورے کے مطابق حاسد بھلے گورا چٹا ہو، اُس کا منہ کالا ہوتا ہے۔کچھ لوگ دوسروں کے شریکے میں اپنی شخصیت تباہ کرلیتے ہیں:
ہیں کامیابی پر حاسد شکست پر برہم
بتاؤ ایسے مزاجوں کا کیا، کیا جائے
آج کا دور نفسیاتی الجھنوں اور بیماریوں کا دور ہے۔ میرے خیال میں نفسیاتی بیماریاں،روحانی بیماریوں کا ہی دوسرا نام ہیں۔ حسد بھی ایک روحانی اور نفسیاتی بیماری ہے۔اللہ تعالیٰ کی کتاب واضع طور پر کہتی ہے کہ وہ لوگ درحقیقت کافر ہیں جواللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں پر تعجب اورناراضی کا اظہار کیا ہے جو اُن لوگوں سے حسدکرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کوئی نعمت عطا کی ہے۔ ارشاد نبویؐ کامفہوم ہے کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوسکتے۔ہمیں بتایاگیا کہ پچھلی قوموں کی طرح حسد اور بغض کی برائیاں اُمت مسلمہ میں بھی عام ہو جائیں گی:
حسد کا رنگ پسندیدہ رنگ ہے سب کا
یہاں کسی کو کوئی اب دعا نہیں دیتا
حسد روح کا کینسر ہے۔اللہ کے نبی ؐ نے حکم دیا کہ حسد سے بچاجائے کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے حاسدین کے شر سے بچنے کیلئے اپنی کتاب میں مفصل آیات اُتاری ہیں۔سورہ ”فلق“ ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمیں حسدکرنے والے کی بُرائی سے پناہ مانگنی چاہیئے، جب وہ حسد کرنے لگے۔پناہ اُس ذات باری تعالیٰ کی مانگنی چاہیئے جو ہم سب کا پروردگار ہے اور کائنات کی ہرچیز کا پیدا کرنے والا ہے۔پاک پیغمبر ؐ اپنے صبح وشام کے اوقات کے اذکار میں سورہ ”فلق“ کو شامل رکھتے تھے۔ ہمیں بھی اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ ہم صبح شام حسد کرنے والوں کے شرسے پناہ مانگتے رہیں۔حضور اکرمؐ کی بارگاہ میں سوال ہوا کہ سب سے افضل کون ہے؟ اللہ کے نبی ؐ نے فرمایا ”زبان کا سچا اور مخموم القلب مسلمان“۔”عرض کی گئی یہ تو ہم جانتے ہیں کہ زبان کا سچا کون ہے لیکن مخموم القلب سے کیا مراد ہے۔پیغمبر خدانے بتایا کہ اللہ سے ڈرنے والا، ہرقسم کے گناہ،سرکشی،دھوکہ دہی اورحسد سے بچنے والا۔“اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں حسد کرنے سے اور کسی کے حسد کا شکار ہونے سے اپنی پناہ میں رکھیں۔ آمین۔