آج کچھ فوج کے حوالے سے!

    آج کچھ فوج کے حوالے سے!
    آج کچھ فوج کے حوالے سے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ موجودہ حکمران اتحاد اور جانے والی حکومت کے حضرات ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں کہی گئی باتوں سے نہ صرف اتفاق کر رہے ہیں، بلکہ اپنے اپنے مطلب کے معانی بھی اخذ کر رہے ہیں۔ فواد چودھری اور مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنے موقف کی تائید والے معنی نکالے اور ساتھ ہی ساتھ عدالت عظمیٰ سے پھر مطالبہ کیا کہ خط کے مسئلہ پر عدالتی تحقیقات کرائی جائے۔ دوسری طرف سے اس امر پر اطمینان ظاہر کیا گیا کہ خط اور فوجی اڈوں کے حوالے سے وضاحت نے تحریک انصاف کے موقف کو جھٹلا دیا ہے، تاہم پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس پریس کانفرنس سے جمہوریت کو تقویت ملی ہے، اسی دوران تحریک انصاف کے ایک معتبر دور کی کوڑی لائے۔ ان کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کے بیانیے نے کم از کم یہ واضح کر دیا کہ فوج کا سیاست سے تعلق نہیں اور غیر جانبداری (نیوٹرل) والی بات ہوا ہو گئی ہے۔


یہ عرض کئی بار کر چکا ہوں کہ ایک رپورٹر کی حیثیت سے میں نے نہ صرف 1965ء کی سترہ روزہ جنگ اور فائر بندی کے بعد والے حالات کی سرگرم رپورٹنگ کی بلکہ 1971ء والی لڑائی کا بھی مشاہدہ کیا، اس دوران میرا سابقہ اپنے فوجی جوانوں سے قریب تر رہا،1965ء میں جلو موڑ کے حصے کا دفاع کرنے والی 3بلوچ رجمنٹ سے تو بڑے دوستانہ مراسم رہے۔ میجر جنرل تجمل ملک (مرحوم) جو اس وقت بٹالین کمانڈر تھے اور ان کے رفقاء کار سے خلوص و محبت کا رشتہ بھی استوار ہوا، آج بھی سٹاف آفیسر خالد نواز (لیفٹیننٹ جنرل ر) کرنل نفیس انصاری، میجر  نواز، میجر انور شاہ اور کیپٹن اقبال کی یادیں امانت ہیں، یہ حوالہ دینے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ایک ترقی پسندانہ موقف رکھتے ہوئے بھی میں فوج کی اہمیت اور اس کے جوانوں کی قربانیوں کا معترف ہوں اور بوجوہ سمجھتا ہوں کہ آج کے حالات میں بھی ہمارے ملک کی بیرونی سرحدوں کے تحفظ اور اندرون ملک دہشت گردانہ سرگرمیوں کا سدباب لازم اور یہ صرف فوج ہی ہے جو جانوں کی پرواہ کئے بغیر شہادت کا درجہ حاصل کرتے ہوئے بھی برسرپیکار ہے۔ موضوع سے تھوڑا ہٹ کر یہ عرض کروں کہ میرے بہت سے ترقی پسند دوست، اشتراکیت کے موئید اور سرمایہ دارانہ نظام کے مخالف سرمایہ دار ممالک میں امن و سکون سے زندگی گزارتے ہوئے آج کل اس بیانیے کی حمائت کر رہے ہیں، جو فوج کی سیاست سے مداخلت ختم کرنے والا ہے، اگرچہ یہ حمائت بھی ہمارے ان دوستوں رہنماؤں اور سیاست دانوں کی ہے جو کل تک خود فوج ہی کا سہارا لئے تھے اور ان کے سب سے بڑے مجاہد آج بھی فوج ہی سے مفاہمت کی بات کر رہے ہیں۔


امکانی طور پر یہ دوست ناراض ہوں گے اور اپنے دلائل لا کر مجھے مطعون کریں گے، لیکن ان کو اپنے کردار کا بھی دھیان ہونا چاہیے کہ نوازشریف نے جب کہا”مجھے کیوں نکالا“ تو ان حضرات نے ان کا مذاق اڑایا اور اب اگر عمران خان یہ پوچھتے ہیں کہ ”میں نے کیا جرم کیا تھا“ تو یہ حضرات ان کی حمائت میں آ گئے ہیں، اس لئے میں عرض کروں گا کہ ہر شخص کو اپنے ذاتی خیالات اور موقف کا حق ضرور ہے، لیکن ایسا کرتے ہوئے قومی مفاد دیکھنا لازم ہے اور قومی مفاد کے لئے ہمیں 1973ء کے آئین کا پابند رہنا ہوگا، جو متفقہ آئین ہے اور یہی آئین مسلح افواج کے خلاف بے جا تنقید سے روکتا بھی ہے۔


یہ معروضات اپنا نقطہ ء نظر واضح کرنے کے لئے تحریر کی ہیں۔ اصل بات تو اپنی عادت کے خلاف میجر جنرل بابر افتخار کی میڈیا بریفنگ کے حوالے سے کرنا ہے۔ اس میں انہوں نے تفصیل سے تمام پہلوؤں کا ذکر کیا اور سوالات کے جواب بھی دیئے، یہ پریس کانفرنس اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے واضح طور پر فوج کو سیاست سے دور رکھا اور بار بار کہا کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے یہ خوش آئند ہے کہ ساتھ ہی انہوں نے ایسے افواہ سازوں کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی جو فوجی مداخلت کا ذکر کر رہے تھے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا مارشل لاء کا کوئی امکان نہیں ہے، یوں براہ راست فوجی مداخلت کے خدشے کی بھی تردید کر دی گئی،انہوں نے جو سب سے اہم بات کہی وہ ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے ہے، اگرچہ ان کا کہنا ہے کہ ایٹمی اثاثوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے احتیاط کرنا چاہیے، لیکن پس منظر میں کپتان کے اس بیان کا انکار تھا، جو انہوں نے پشاور کے بھرے جلسے میں اپنی عادت کے مطابق دیا اور فوج ہی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”کیا یہ چور ڈاکو (سابق اپوزیشن) ایٹمی پروگرام کی حفاظت کریں گے“ کپتان خود وزیراعظم رہے اور روائتی طور پر ایٹمی بٹن چیف ایگزیکٹو کے پاس ہوتا ہے، ان سے یہ تو پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا خود ان کے اپنے علم میں ہے کہ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں یا نہیں اور کیا انہوں نے خود مشاہدہ کیا؟ یہ امر ان سے پوشیدہ تو نہیں کہ ایٹمی اثاثوں کے مکمل تحفظ کے لئے ایک پوری اتھارٹی موجود ہے اور اس کی ضامن بھی ہماری مسلح افواج ہیں اور پھر جن حضرات کے حوالے سے انہوں نے ایسا بیان دے دیا، انہی کے بڑوں نے ایٹمی پروگرام دیا اور دھماکے کئے، جبکہ آج کا جو میزائل پروگرام ہے وہ محترمہ بے نظیر بھٹو (شہید) کی کاوش کا نتیجہ ہے، جنہوں نے خطرہ مول لے کر یہ ٹیکنالوجی حاصل کی، حالانکہ وہ یہ جانتی تھیں کہ ان کے والد کو کس بناء پرشہید کیا گیا اور خود انہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کی اور شہید ہو گئیں۔


میں اپنے فوجی ترجمان کے موقف کی تائید پر مجبور ہوں کہ انہوں نے بہت واضح بات کی اور جن بیانات سے ڈپلومیٹک سطح پر ملکی تعلقات متاثر ہوتے ہیں، ان کا بھی ذکر کر دیا، اس لئے اس کے بجائے کہ ان کی بریفنگ میں ہمارے سیاسی رہنما اپنا اپنا موقف تلاش کریں، وہ سب دفاعی امور کو اس طرح زیر بحث لانے سے گریز کریں اور فوج کے ترجمان اگر سیاست میں مداخلت سے انکار کرتے ہیں تو ان کی حمایت کریں دکھ تو یہ ہے کہ آج جو حضرات فوج سے شکوہ کر رہے ہیں، یہی تو ہیں جنہوں نے خود فوج کو زیر بحث لانے کا عمل کیا، ایمپائر کی انگلی سے ایک صفحہ تک کی بات بھی یہی کرتے تھے اور ہمارے فرزند راولپنڈی، لال حویلی والے شیخ رشید نے تو ابھی کل ہی کہا ”ہمیں (عمران خان) فوج سے مصالحت کر لینی چاہیے“ یہ حضرت جو سولہ بار وزیر رہ چکے اور آج کل کپتان کے فدائی ہیں، چوتھے گیٹ سے ایک صفحے اور فوج کی حمائت کا برملا اعلان کرتے رہے اور یوں مخالفین کو ابھارتے رہے کہ وہ مخالفت کریں، بلکہ ان کی گفتگو معنی خیز تھی جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ فوج کے محب اور تب کی اپوزیشن فوج مخالف ہے، حالانکہ یہ خود بھی مسلم لیگ (ن) کا حصہ اور اس کے اقتدار میں بھی وزیر رہے اور پھر یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک سے زیادہ بار برسراقتدار رہ چکی ہیں اور یہی ان کا کریڈٹ بھی ہے کہ فوج تو ادارے کی حیثیت سے موجود رہی، میجر جنرل بابر کی ایک وضاحت بہت اہم اور غور طلب ہے، میں اس کا ذکر کررہا ہوں، تبصرہ نہیں کروں گا وہ کہتے ہیں، سپہ سالار نہ تو توسیع چاہتے ہیں اور نہ لیں گے اور بروقت ریٹائر ہو جائیں گے، مزید کہا فوج متحد اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔

مزید :

رائے -کالم -