حق بحق دار، کار دار پی سی بی ہال آف فیم میں!

حق بحق دار، کار دار پی سی بی ہال آف فیم میں!
حق بحق دار، کار دار پی سی بی ہال آف فیم میں!

  


 بہت ہی دیر کر دی مہربان آتے آتے تاخیر ہوئی تو شاید کچھ باعث تاخیر بھی ہو۔ تاہم دیر آید درست آید کہ جمعہ کی شب رمضان المبارک میں حق بحق دار رسید کے مطابق پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان بہترین اور اصول پرست انسان عبدالحفیظ کاردار کو بھی ان کا حق مل گیا اور ان کو بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہال آف فیم میں شامل کر لیا گیا۔ جبکہ ایک انکلوژر بھی ان کے نام سے موسوم ہو گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اتنی زیادہ تاخیر کے بعد بھی یہ اعزاز (اگر ان کے مطابق ہے تو) ملا تو کئی حضرات کے سینے پر سانپ لوٹ گئے ہوں گے اور کچھ علم نہیں کہ اگر ایسے حضرات کو موقع ملا تو وہ یہ اعزاز واپس ہی کر لیں۔


عبدالحفظ کاردار آکسفورڈ میں پڑھے اور وہاں کھیلے پھر ان کو متحدہ ہندوستان کی کرکٹ میں بھی کھیلنے کا موقع ملا اور وہ ٹیسٹ ٹیم میں شامل رہے قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اس ملک کی ٹیم بنائی۔ قیادت سنبھالی اور کئی کارنامے انجام دیئے وہ خود ایک بہترین آل راؤنڈر تھے اور اوول کا جو ٹیسٹ پاکستان کی ٹیم نے جیتا اور مرحوم فضل محمود اوول کے ہیرو بنے اس کی قیادت بھی عبدالحفظ کاردار ہی نے کی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم مشکل میں تھی۔ ٹام گریونی کھیلنے آئے تو سکیپر کاردار نے فیلڈ میں تبدیلی کی اور ایک فیلڈر ایسی جگہ کھڑا کیا جو کسی کو پسند نہ آیا اور کومینٹیٹر بھی اعتراض اور حیرت کا اظہار کرتے رہے۔ اس وقت سب خاموش ہو گئے جب ٹام گریونی اسی فیلڈر کے ہاتھوں کیچ ہوئے۔ یہ تو ایک مثال ہے کاردار کے حوالے سے تو بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مجھے ان کی دوستی کا اعزاز حاصل ہوا تو یہ بھی فخر ہے کہ اقبال پارک میں ان کی کریسنٹ کرکٹ کلب کے نیٹ میں گیند کے پیچھے بھاگتا رہا ہوں۔


عبدالحفظ کاردار کی زندگی کے کئی پہلو ہیں ان کی اصول پرستی اور دیانت بھی مشہور ہے اور یہ سب انہوں نے کئی بار ثابت بھی کیا انہوں نے سرکاری ملازمت بھی کی اور آج کے بنگلہ دیش میں سیکریٹری تعلیم رہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے قیام کے بعد وہ اس جماعت سے منسلک ہو کر سیاست میں آئے۔ تو میرا ان سے نئی حیثیت سے رابطہ ہوا۔ انتخابی مہم کے دوران مجھے سکپر کاردار اور ایس ایم مسعود (مرحوم) نے بہت متاثر کیا۔ ہر دو افراد سیاست میں نئے تھے۔ سکپر اور ایس ایم مسعود جن حلقوں سے منتخب ہوئے وہ ان کے لئے اجنبی تھے۔ اگرچہ کاردار صاحب والے حلقے میں ان کو برادری کی حمایت بھی حاصل تھی تاہم ایس ایم مسعود شمالی لاہور سے انتخاب لڑ رہے تھے۔ ہر دو کی انتخابی مہم کا یہ انداز تھا کہ دونوں نے تعارفی ہینڈبل چھپوائے اور ڈور ٹو ڈور جا کر خود تقسیم کئے۔ یوں 1970ء والے انتخابات میں دونوں ہی نمایاں اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) کے حوالے سے کاردار صاحب اپنا نقطہ نظر کھل کر بیان کر دیتے تھے۔ اس سلسلے میں بھٹو صاحب کو بھی اعتراض نہ ہوتا تھا کہ ان سے پرانی دوستی تھی جو بمبئی سے کرکٹ کے حوالے سے تھی اور بھٹو صاحب بھی ان کو سکپر ہی کہا کرتے تھے۔


حالات اور گردش زمانہ کے بعد جب پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی تو صوبائی کابینہ میں ان کی شرکت غیر متوقع نہیں تھی۔ تاہم عام خیال تھا کہ ان کو وزارت تعلیم کا منصب ملے گا لیکن جب وزارتیں تقسیم ہوئیں تو وہ وزیر خوراک و زراعت تھے۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ ایسا کیوں تو ان کا جواب تھا، شاید اس لئے کہ میرا تعلق شعبہ تعلیم سے رہا ہے اور راہنماؤں  کا خیال ہوتا ہے کہ اس شعبہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ذاتی تعصبات نہ ہوں۔  وہ مطمئن تھے ان کی کارکردگی یہاں بھی بہتر تھی میرے ان سے دوستانہ مراسم بنے اور وزارت سے قبل ان کی رہائش پر ہفتہ وار محافل کا بھی حصہ رہا ان محافل میں ہمارے ترقی پسند سینئر اور راہنما بھی شریک ہوتے تھے۔ نثارعثمانی، آئی اے رحمن حسین نقی اور منہاج برنا نمایاں ہیں۔ یہ محافل بڑی یادگار حیثیت رکھتی ہیں کہ یہاں قومی اور بین الاقوامی مسائل پر کھل کر بات ہوتی تھی۔ عبدالحفظ کاردار بہت اچھے میزبان تھے اور خود بھی سروس کرتے تھے۔ ان دنوں ان کی رہائش آج کے زمان پارک کے سامنے کینال والے فلیٹس میں تھی بعد ازاں وہ گلبرگ منتقل ہو گئے تھے۔  یہ گھر انہوں نے خالص کمائی سے لیا اور اس میں ان کے صاحبزادے شاہد کاردار کا بھی حصہ تھا۔
عبدالحفظ کاردار کی اصول پرستی کے بہت سے واقعات ہیں تاہم جو میرے ساتھ پیش آئے وہ بھی اہم ہیں۔ صوبائی وزارت کے دوران ان کی ابتدا سیکرٹری محکمہ کے ساتھ اختلاف سے ہوئی اور باقاعدہ خط و کتابت کے ذریعے ایک دوسرے کے موقف کی تردید کرتے رہے قواعد کے مطابق کسی منصوبے یا کام کے حوالے سے وزیر اور سیکریٹری کے درمیان اختلاف ہو تو فیصلہ وزیراعلیٰ کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کو یہ حمایت حاصل رہی لیکن محمد حنیف رامے (مرحوم) سے اختلاف ہوا تو انہوں نے وزارت چھوڑ دی تھی بھٹو صاحب نے ان کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنا دیا تو وہ اچھی ٹیم بنانے میں جٹ گئے اور ان کے دور میں بھارتی کرکٹ ٹیم کا دورہ ہوا اور پاکستان کرکٹ ٹیم بھی بھارت گئی۔ اس دور میں ہمارا بھی ان سے اختلاف ہوا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں عشائیہ تھا صحافیوں کو دعوت نامے تقسیم کئے گئے ان میں پاکستان ٹائمز والے بہت ہی معروف مظہر بھی شامل تھے۔ عشائیہ کی شب سے قبل جب قذافی سٹیڈیم میں پاک بھارت ٹیسٹ چل رہا تھا تو اطلاع ملی کہ مظہر کا دعوت نامہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ پریس گیلری میں اس وقت پی یو جے کا کورم تھا میں سینئر نائب صدر تھا۔ جبکہ چاچا ایف ای چودھری پی ایف یو جے کے سیکریٹری خزانہ تھے۔ گنتی کی تو کورم پورا تھا چاچا ایف ای کی صدارت میں وہاں اجلاس ہو گیا اور ڈنر کا بائیکاٹ کر دیا گیا کار دار صاحب کو علم ہوا تو وہ گیلری میں چلے آئے اور اس پر احتجاج کیا۔ ان کا موقف تھا کہ کرکٹ بورڈ ان کا گھر ہے اور وہ اپنے گھر میں کسی کو بلانے یا نہ بلانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ میں نے تمام تر احترام اور دوستی کے باوجود عرض کیا کہ اول تو بورڈ ان کا گھر نہیں اگر یہ بھی تصور کر لیا جائے تو یہ توہین آمیز حرکت ہے کہ دعوت نامہ جاری کر کے منسوخ کیا جائے۔ ہم اپنے اپنے موقف پر رہے اور بائیکاٹ ہو گیا میرے اور ان کے تعلقات متاثر نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے مجھ سے بات کرتے ہوئے شکوہ کیا کہ مظہر بورڈ کی طرف سے ٹیم کے ساتھ دورے پر گئے بورڈ نے ان کے اخراجات برداشت کئے تھے میں (کاردار) نے ان (مظہر) سے درخواست کی کہ اس دورے کے حوالے سے کچھ لکھ ہی دیں کہ بورڈ چھپوا لے لیکن انہوں نے یہ بھی نہیں کیا بہر حال یہ عرض کیا کہ ان کا اپنا ہی انداز تھا۔


کرکٹ کے حوالے سے ان کی کارکردگی ہمیشہ قابل ستائش رہی پاکستان کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کا دورہ کرنا تھا ٹیم کی سلیکشن کا کام ہو رہا تھا کہ آسٹریلیا کرکٹ بورڈ سے چینل 9 کے مالک کیری پیکر کا نشریاتی حقوق پر جھگڑا ہو گیا اور انہوں نے اپنی کرکٹ شروع کرا دی اور بھارتی معاوضے پر دنیا بھر کے کھلاڑیوں کو مدعو کر کے ٹیمیں بنائیں۔ (آج کل آئی پی ایل اور پی ایس ایل اس کی نقل ہے) پاکستان سے آصف اقبال نے عمران خان اور ماجد خان کو بھی شامل کر لیا اور یہ حضرات بورڈ کی اجازت کے بغیر چلے گئے۔ انگلینڈ جانے والی ٹیم میں یہ تینوں شامل تھے۔ کاردار صاحب نے ان کی جگہ متبادل کھلاڑی لئے اور باری کو کپتان بنا کر ٹیم تیار کر دی، اس اثناء میں کیری پیکر کا آسٹریلیا بورڈ سے سمجھوتہ ہو گیا اور سرکس پیک ہو گئی۔ عمران اور ماجد نے واپس آکر بورڈ میں رپورٹ کر دی اور ٹیم میں شامل ہونے کا مطالبہ کر دیا کاردار نے انکار کر دیا تو یہ حضرات سفارشات ڈھونڈ کر بھٹو صاحب تک پہنچ گئے۔ بھٹو نے مان لیا اور کاردار کو فون کر کے کہا ”سکیپر! واپس لے لو! انہوں نے کہا جی سر اس کے بعد کاغذ لیا اور استعفیٰ لکھ کر عملہ سے الوداعی ملاقات کی اور گھر چلے گئے اس کے بعد انہوں نے کرکٹ پر بات کرنا بھی چھوڑ دیا پھر ان کو سوئٹزر لینڈ میں سفیر بنایا گیا وہاں تین سال رہے واپس آئے تو کرکٹ پر پہلی بار ان کو بات کرنے پر آمادہ کرنے کا اعزاز مجھے حاصل ہے میں نے واقعات تحریر کئے یہ نہیں بتایا کہ ہال آف فیم میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ یہ راز چڑیا والے نجم سیٹھی کو عوام کو بتانا چاہئے۔

مزید :

رائے -کالم -