بدکردار عورت

Apr 16, 2024

زیبا شہزاد

 میں شادی کے اول روز خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھ بیٹھی۔ ایک عام سے گھر میں رہنے والی لڑکی کو صرف خوبصورتی کی بناء پہ محلوں کا شہزادہ مل جائے تو اس کی قسمت پہ رشک آتا ہے۔ مجھے بھی اپنی قسمت پر ناز ہونے لگا۔ میں سکھیوں کے جھرمٹ میں مہارانی بنی بیٹھی تھی۔ مجھے لگا جس نے دنیا فتح کی وہ سکندر اعظم نہیں تھا وہ تو میں تھی  اور یہ میرا دوسرا جنم ہے، جس میں اب ایک مہارانی بن کے آئی ہوں، جو حُسن کے بل پر اپنے دولہا کا دِل فتح کرنے جا رہی ہے۔ چڑھتے جوبن پر دلہناپا عجیب ہی بہار دکھارہا تھا۔ سمجھ نہیں آتی تھی حُسن کی تپش زیادہ ہے یا دلہن کا روپ۔ جو آنکھ بھی دیکھتی مبہوت رہ جاتی۔ دیکھنے والوں کو احتراماً نہیں مجبوراً اپنی آنکھیں جھکانا پڑیں، کہ آنکھوں سے نکلتی خوشیوں کی چمک برداشت سے باہر تھی۔ کسی کی آنکھ اور دِل میں اتنی برداشت کہاں کہ وہ میرے چہرے کی رعنائی و دلکشی سہہ پاتا۔ بھرے بھرے ہونٹوں پر مصنوعی اور گالوں پر فطری حیا کی لالی نے حُسن کو دو بالا کر رکھا تھا۔ نئی زندگی کی شروعات کے خوابوں نے انگ انگ کو اک مستی عطاء کر رکھی ہو تو کون اس حُسن کے آگے ٹھہر کر دیکھنے کی جسارت کرتا۔ ویسے بھی یہ جرأت تو اسی کو زیب دیتی تھی،جس کے تصور نے روح و بدن میں سرشاری پیدا کررکھی تھی۔ 

لیکن کسے خبر تھی ان خوشیوں کی مدت چند گھنٹے ہے۔ شادی کے اول روز کی تابانیاں رات کی سیاہی میں گھل کر ختم ہونے والی ہیں۔حُسن کی رعنائیاں، انداز کی شوخیاں، آنکھوں کے خواب، دِل کے ارمان جو جانے کتنے دنوں، مہینوں،سالوں سے جمع ہو رہے تھے، ان سب کو بس ایک ہی رات کی تاریکی نگل جائے گی۔ رات کی سیاہی میرے نصیبوں پر بھی کالک مل دے گی۔ جیسے ایک پہاڑ کسی مشتاق کے دیدہ شوق کی آرزو میں جلوے کی تاب نہ لا کر جل کر بھسم ہو گیا تھا۔ ویسے ہی کوئی حسن کی تپش نہ سہہ پایا، یا حسن نظر انداز کئے جانے کا صدمہ برداشت نہ کر سکا، جو بھی تھا میرا تو سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا۔ 

 اگلے دن کی صبح کسی بدمست گھوڑے کی طرح میری ساری امیدوں اور خوابوں کو پیروں تلے روندتی، اپنی فتح کا اعلان کرتی نمودار ہوئی، میں جو سر آنکھوں پہ بیٹھنے کا خواب لیکر آئی تھی اسے پیروں میں بھی جگہ نہیں ملی۔ ایک مرد حاکم نے مجھے بتایا کہ تو ایک عورت ہے تیری ہستی میرے پیروں کے نیچے ہے۔ میں چاہوں تو تجھے عزت سے نوازوں، کردار کشی کرنے پہ آؤں تو تجھے منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑوں، کون ہے جو میری بات کو جھٹلا سکے اور میں نے جان لیا کہ میں بے توقیر، میں بے اماں۔

شادی کی صبح ”مجھ“ پر انکشاف ہوا میں بد کردار ہوں۔ ہر کوئی ”جائے وقوعہ“ دیکھنا چاہتا تھا اور پھر مجھے بد کرداری کا بصری سرٹیفکیٹ مل گیا۔ شادی پہ آئے تمام لوگوں کی انگلیاں میری طرف اُٹھ گئیں۔ ہائے ہائے ایسی معصوم صورت اور یہ کرتوت۔ خدا بیٹی دے تو نیک دے۔ ایسی بیٹیوں کو تو جان ہی سے مار دینا چاہئے۔ جتنے منہ اس سے دوگنی باتیں۔ میرے والدین کو بلایا گیا۔ہر کسی نے حسب ِ توفیق مجھ پہ لعن طعن کی۔ میں نے دیکھا میرے بوڑھے باپ کے کندھے جھک گئے ہیں۔ وہ مجھے ساتھ لئے سر جھکائے میرے آگے چل پڑا اور میری ماں لوگوں سے نظریں چراتی میرے پیچھے۔ گھر واپسی پہ کہرام مچ گیا، ماں مجھے مار مار کے ہلکان ہوگئی تو اپنا ہی سینہ پیٹنے لگی۔ جانے کس کے سامنے عزت لٹا کے آئی تھی۔ اتنی ہی منہ زور جوانی تھی تو ہم سے کہتی، اسی کے ساتھ نکا ح پڑھوا دیتے، یوں عزت خاک میں تو نہ ملتی۔ بھائیوں نے منہ موڑ لیا، بھابھیاں عجیب تولتی نظروں سے دیکھتیں، بہنوں نے بلانا چھوڑ دیا۔ باپ نے چپ سادھ لی، اور چند دن بعد ہی میرے ناکردہ گناہ کا بوجھ اُٹھائے خاموشی سے اگلی منزل کو روانہ ہو گیا۔ میرے ناپاک وجود سے گھر کی پاکیزگی کو خطرہ ہونے لگا اور یوں مجھے میرے کمرے تک محدود کر دیا گیا۔

 تو یہ طے تھا کہ اب میری زندگی میں آنے والے سارے دن اذیت ناک اور ہر رات پچھلی سے زیادہ وحشت لئے ہو گی۔ غیروں سے گلہ کیا کرتی، میرے تو خونی رشتوں نے میری بات نہ سنی، اعتبار تو بہت اگلی منزل تھی۔ بنا جرم کئے مجھے سزا سنا دی گئی۔ اب میں ہوں اور کمرے کی تنہائی ہے۔

مجھ پر الزام ہے کہ میں قابل ِ اعتبار نہیں، لیکن بھروسے کے قابل تو وہ بھی نہیں جس نے سینکڑوں لوگوں کے سامنے زندگی بھر خوشی اور غم میں ساتھ نبھانے والے معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ خوشی میں شادیانے اور غم میں نوحہ خوانی کرنا دنیا کی رسم ہے۔ جب تک دنیا ہے یہی ریت رہے گی۔ خوشی میں کوئی بلائے تو جانا پڑتا ہے، جبکہ دُکھ پر بن بلائے شامل ہوجاتے ہیں، لیکن میرے تو دکھ میں بھی کوئی شامل غم نہ ہوا۔ زندگی کے ختم ہونے کا سوگ تو سبھی مناتے ہیں، لیکن روح کے مرنے کا پرسہ کوئی نہیں دیتا۔ علاج کیا جائے تو جسم کے گھاؤ بھر جاتے ہیں روح اذیت میں ہو تو کسی وید سے اس کی تشخیص نہیں ہوتی۔ بدن کی پامالی ہو تو کسی کو نظر بھی آئے، روح کی پامالی کون دیکھے۔ عورت چاہے کتنی ہی نیک کیوں نہ ہو، معتبر تبھی مانی جائے گی جب اس کا مرد گواہی دے گا۔ اور میرا مرد میری گواہی دے چکا تھا۔

کچھ عرصہ بعد پھر سے میری ذات نشانے پر آگئی ہے۔ ”ہر کسی کے زخم جاگے ہیں“۔ آفاق حیدر سے ہمدردی اور میری بدچلنی کی داستان پھر سے دہرائی جا رہی ہے۔ آفاق حیدر کی پھر سے شادی ہو رہی ہے۔ وہی آفاق حیدر جس کی پہلی شادی ایک رات نہ چلی، پہلی رات ہی اس پر بیوی کی بدچلنی ثابت ہو گئی تھی۔ ایسی بدکردار بیوی کو وہ اپنے ساتھ کیوں رکھتا۔ اللہ کرے اب کی بار اُسے نیک پارسا عورت مل جائے۔ ہر کوئی اس کے لئے دُعاگو ہے۔ 

لیکن یہ کیا اس کی تو دوسری شادی بھی نہ چلی۔ لوگ انگشت بدنداں ہیں، اب کی بار الزام لگانے والا آفاق حیدر نہیں، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والی اس کی پڑھی لکھی بیوی ہے۔

 بظاہر آفاق حیدر ایک مظبوط جوان مرد ہے، لیکن ازدواجی زندگی گذارنے میں ناکام انسان ہے۔ اس نے اپنی بیماری کا علاج کروانے کی بجائے عورتوں کو تختہ مشق بنا رکھا ہے۔ اپنی کمزوری پہ پردہ ڈالنے کو شادی رچاتا ہے اور عورت کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ ایسے مرد سے مجھے نہ صرف آزادی دلائی جائے بلکہ اس کو دو عورتوں کی زندگی برباد کرنے پر کڑی سزا بھی دی جائے، بلکہ ایسی سزا دی جائے۔ تاکہ یہ مزید کسی اور عورت کی زندگی خراب نہ کر سکے۔ خلع کے دعوے کے ساتھ یہ بیان اس کی دوسری بیوی نے عدالت میں جمع کروایا۔

مزیدخبریں