ٹرین میں مسافر خاتون پر تشدد کرنیوالا پولیس اہلکار دوبارہ گرفتار، مقدمے میں قتل کی دفعات شامل 

ٹرین میں مسافر خاتون پر تشدد کرنیوالا پولیس اہلکار دوبارہ گرفتار، مقدمے میں ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

                                                                        بچیانہ، لاہور(نمائندہ خصوصی، لیڈ ی رپورٹر) بچیانہ کی رہائشی 29سالہ مریم کی ٹرین میں پولیس اہلکار کے تشدد سے ہلاکت کا معاملہ نیا رخ اختیار کر گیا۔میری ہمشیرہ کوپولیس اہلکار نے مریم کو چلتی ٹرین سے دھکا دے کر مار دیا۔متوفیہ کے بھائی نے تحقیقات کرکے ملزمان کو سزا کیلئے درخواست کردی۔ تفصیلات کے مطابق بچیانہ کے نواحی گاؤں چک نمبر648گ ب کی رہائشی 29سالہ مریم جو کہ کراچی میں بیوٹی پارلر کا کام کرتی تھی۔ عید کی چھٹیاں گذارنے کیلئے ملت ایکسپریس پر سوار واپس اپنے گاؤں آرہی تھی کہ اس دوران ٹرین میں پولیس اہلکار کی طرف سے اس پر تشدد کیا گیا جس کے بعد خاتون کی لاش چنی گوٹھ کے قریب سے ملنے پر اہل خانہ نے اسے حادثاتی موت سمجھتے ہوئے دفن کردیا۔ بعد ازاں خاتون پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہونے پر معاملہ کچھ اور ہی رخ اختیار کر گیا۔متوفیہ کے بھائی افضل نے اعلی حکام کو درخواست گزارتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ میری بہن 7 اپریل کو اپنے بھتیجے اور بھتیجی کے ساتھ چھٹیاں گزارنے کے لئے گھر آ رہی تھی کہ ٹرین میں ریلوے پولیس کے اہلکار میر حسن نے اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ مریم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی منع کرنے پر اسکو تشدد کا نشانہ بنایا جو کہ ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے۔جب میری بہن نے اسے منع کیا تو اس نے اسے چلتی ٹرین سے دھکا دے کر مار دیا۔دوسر ی طر ف مر یم کی بڑی بہن شازیہ نے کہا ہے کہ پولیس والا مریم کو ساتھ لے گیا تھا۔نجی ٹی وی سے گفتگو میں خاتون کی بڑی بہن شازیہ نے بتایا کہ ٹرین میں رش کے دوران میری بہن مریم کا پرس کھو گیا تھا، فون پر بہن نے بتایا پولیس والا تنگ کر رہا ہے، میں نے فون پر ٹی ٹی سے بات کی اور ٹکٹ کے پیسے آن لائن بھجوانے کا کہا تھا۔شازیہ کے مطابق میری بہن نے پولیس والے سے بھی فون پر بات کروانے کی کوشش کی، پولیس والے نے فون کال کے دوران ہی مریم پر تشدد شروع کردیا تھا، پولیس اہلکار دوران تشدد کہہ رہا تھا کینٹین والے ڈبے میں چلو۔خاتون کی بڑی بہن نے بتایا کہ تشدد کرنے والے اہلکار کے ساتھ دو دیگراہلکار بھی تھے، پولیس والا تشدد کرکے ساتھ لے گیا اور پھر مریم کی لاش کی اطلاع ملی۔مدعی افضل نے اعلی حکام سے اپیل کی ہے کہ قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے اور ہمیں انصاف فراہم کیا جائے۔اس سے قبل خاتون پر تشدد کے واقعے کے بعد میر حسن کو گرفتار کیا گیا تھا، تاہم بعد ازاں اسے ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔ترجمان پولیس کے مطابق 30 سالہ مریم بی بی کا تعلق جڑانوالہ کے چک 648 سے تھا۔مریم کے بھائی افضل کے مطابق اس کی بہن کراچی میں بیوٹی پارلر میں ملازمت کرتی تھی اور عید کرنے کے لئے جڑانوالہ آرہی تھی، ورثا نے خاتون کی ہلاکت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔واضح رہے کہ 7 اپریل کی رات کوٹری اور حیدرآباد کے درمیان ملت ایکسپریس ٹرین میں پولیس اہلکار کے خاتون مسافر پر تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔گرفتار پولیس اہلکار نے بیان دیا تھا کہ خاتون مسافروں کو تنگ کر رہی تھی، منع کرنے پر خاتون نے مجھ سے بھی بدتمیزی کی، جس پر طیش میں آکر ہاتھ اٹھانا پڑا۔مزید بر آں چیف ایگزیکٹو افسر پاکستان ریلویز عامر علی بلوچ نے کہا ہے کہ ملت ایکسپریس واقعہ پر مسافر کے ساتھ ہیں، ہاتھ اٹھانے پر کانسٹیبل کو سخت ترین کارروائی کا سامنا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ واقعے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات جاری ہیں، حتمی نتیجہ آنے تک قیاس آرائیاں نہ کی جائیں۔ عامر علی بلوچ نے کہا کہ ڈی آئی جی ریلوے پولیس ساؤتھ زون کی سربراہی میں واقعے کی انکوائری جاری ہے۔ انکوائری رپورٹ تین روز میں وزارت ریلوے میں جمع کروا دی جائے گی اور میڈیا سے بھی شیئر کی جائے گی۔ چیف ایگزیکٹو افسر ریلوے نے کہا کہ کسی مسافر کے ساتھ ناروا سلوک بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔ مسافر ہمارا قیمتی ترین اثاثہ ہیں، اگر ان کا خیال نہیں رکھیں گے تو ریلوے ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔دریں اثناء  ڈی آئی جی ریلوے ساؤتھ زون عبداللہ شیخ کی سربراہی میں قائم کردہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے سی ای او کو اب تک کی پیش رفت سے آگاہ کیا۔ کانسٹیبل کے کال ریکارڈ، اسٹیشن پر اس کی حاضری اور عینی شاہدین کی شہادتوں سے مریم بی بی کے ریل گاڑی سے گرنے یا چھلانگ لگانے کے وقت مذکورہ کانسٹیبل کی حیدرآباد میں موجودگی پائی گئی ہے جبکہ خاتون کی نعش چنی گوٹھ میں ملی ہے جو ملتان ڈویڑن میں واقع ہے۔آئی جی ریلوے نے ڈی آئی جی ریلوے ساؤتھ کو کیس کا ہر ممکن زاویے سے جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے۔ اس ضمن میں چیئرمین ریلویز کو بھی پیش رفت سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ رکھا جا رہا ہے۔

خاتون پر تشدد

مزید :

صفحہ آخر -