بیسا بیساکھی اور کرتار پور

   بیسا بیساکھی اور کرتار پور
    بیسا بیساکھی اور کرتار پور

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کھی بھارتی پنجاب سے لے کر ہمارے پنجاب تک اپنی رونق افروزیوں میں کمال تاریخ رکھتی ہے یہ صرف مذہبی تہوار نہیں بلکہ پنجاب کی زرعی روح کا بھی عکس ہے۔ یہ وقت وہ ہوتا ہے جب کسان اپنی گندم کی فصل کاٹتے ہیں اور زمین کی مہک سے انکی سانسیں معطر ہو جاتی ہیں یوں وہ بھرپور خوشیاں مناتے ہیں۔ ہر گاؤں، بستی میں ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا اور'گدّا' ڈال کر کسان اپنی محنت کا ثمر پانے کا  جیسے اعلان کرتے  ہیں۔گندم کی فصل کی کٹائی نہ صرف معیشت کے لیے اہم ہوتی ہے بلکہ اس سے خوشحالیوں کے سلسلے بھی دراز ہوتے ہیں دیہی علاقوں میں میلوں، لوک موسیقی، ثقافتی نمائشوں اور روایتی کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ بیساکھی میلہ دراصل کسانوں کے لیے ''شکریہ'' ادا کرنے کا دن ہے۔خدا کا شکر، زمین کا شکر، اور اپنی محنت کا جشن۔گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے حکومت نے قابلِ تعریف اقدامات کیے ہیں۔ بالخصوص بیساکھی کے موقع پر سکھ یاتریوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے ویزا پالیسی میں نرمی، سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات، اور سہولیات کی فراہمی نے دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت تاثر قائم کیا ہے۔ سکھ برادری ان اقدامات کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔بیساکھی کا میلہ پاکستان کی اس شناخت کو مضبوط کرتا ہے جو رواداری، مہمان نوازی، اور بین المذاہب ہم آہنگی پر مبنی ہے۔ یہ تہوار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عقائد مختلف ہو سکتے ہیں مگر انسانیت، محبت اور احترام وہ قدریں ہیں جو سب کو جوڑتی ہیں۔ہر سال بیساکھی کا دن ہمیں صرف فصلوں کی کٹائی، مذہبی رواداری یا سیاحت کی خوشی ہی نہیں دیتا بلکہ ایک اجتماعی امید بھی دیتا ہے۔کہ ہم سب ایک ساتھ اس دھرتی پر اپنی اپنی خوشیوں، روایات اور عقائد کے ساتھ اطمینان سے رہ سکتے ہیں۔

ہر سال اپریل کے مہینے میں جب موسم بہار اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے، تو پاکستان اور بھارت میں بسنے والے پنجابیوں اور کسان طبقے کے لیے ایک نہایت مسرت کا موقع آتا ہے جسے بیساکھی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ فصلِ گندم کی کٹائی کی خوشی میں منایا جانے والا ایک زبردست ثقافتی اور زرعی تہوار ہے۔بیساکھی دراصل پنجابی کیلنڈر کا نیا سال ہوتا ہے اور ہر سال 13 یا 14 اپریل کو منایا جاتا ہے۔کیونکہ 1699ء_  میں سکھوں کے دسویں گرو، گرو گوبند سنگھ جی نے اسی دن ''خالصہ پنتھ'' کی بنیاد رکھی تھی، اس لیے اس دن کو سکھ مذہب میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔بیساکھی سکھوں کے لیے روحانی تجدید، بھائی چارے اور قربانی کی علامت ہے۔ اس دن کو مذہبی اجتماعات، گوردواروں میں ارداس، گردواروں کی سجاوٹ، لنگر کی تقسیم اور شبد کیرتن سے منایا جاتا ہے۔پاکستان میں بیساکھی کی تقریبات خاص طور پر ننکانہ صاحب، حسن ابدال (پنجہ صاحب)، روہڑی صاحب، کرتار پور اور لاہور کے گردوارہ جنم استھان میں بڑی عقیدت سے منعقد کی جاتی ہیں۔ حکومتِ پاکستان ہر سال اس موقع پر دنیا بھر سے سکھ یاتریوں کے لیے خصوصی ویزا سہولت فراہم کرتی ہے۔ بھارت، کینیڈا، برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا اور یورپ سے ہزاروں سکھ یاتری پاکستان آتے ہیں اور اپنے مقدس مقامات کی زیارت کرتے ہیں۔اس سال بھی شکر گڑھ،کرتار پور میں 326 ویں وساکھی میلہ کی پانچ روزہ تقریبات میں شرکت کے لیے  براستہ واہگہ  بارڈر آئے تین ہزار یاتری بسوں کے ذریعے دربار صاحب کرتار پور ننکانہ صاحب  کے لیے پاکستان پہنچے ہیں۔ یاتری بہترین انتظامات اور مہمان نوازی پر حکومت پنجاب کا شکریہ ادا کرتے دکھائی دئیے اور پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتے ہوئے بار بار یاترا کے عزم کا اظہار کرتے رہے۔ دو روزہ قیام کے دوران  یاتریوں نے دربار بابا گرو نانک پر ماتھا ٹیکا عبادات اور رسومات میں شرکت کی لنگر ہال میں یاتریوں کی تواضع کڑی پکوڑا سادہ پلاؤ مکس سبزی متنجن سویابین کے پکوڑوں اور بابا جی کے زیر کاشت اراضی سے حاصل شدہ گیہوں سے تیار چپاتیوں سے کی گئی،  یاتریوں نے کرتارپور بازار سے شاپنگ کی۔کرتار پور راہداری کی تعمیر اور افتتاح نے سکھ برادری کے لیے بیساکھی کو ایک نئی روح عطا کی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بننے والی اس راہداری کے ذریعے سکھ یاتری بغیر ویزا کے کرتار پور میں موجود گوردوارہ دربار صاحب کی زیارت کر سکتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں گرو نانک دیو جی نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے۔ بیساکھی کے موقع پر یہاں ہزاروں یاتری عقیدت کے آنسوؤں اور دعاؤں کے ساتھ حاضری دیتے ہیں۔ننکانہ صاحب، سکھوں کے پہلے گرو، گرو نانک دیو جی کا جائے پیدائش ہے۔ یہاں بیساکھی کے موقع پر خصوصی تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن میں شبد کیرتن، ارداس، اور اجتماعی لنگر شامل ہوتے ہیں۔ حکومتِ پنجاب، متروکہ وقف املاک بورڈ اور مقامی انتظامیہ کی نگرانی میں یہاں صفائی، رہائش، سیکیورٹی اور دیگر سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔

بیساکھی صرف ایک مذہبی یا موسمی تہوار نہیں بلکہ تہذیب، عقیدت اور محنت کا عظیم سنگم ہے۔ یہ دن جہاں سکھ برادری کے لیے روحانی تجدید اور خالصہ پنتھ کی بنیاد کا جشن ہے، وہیں پنجاب کے کسانوں کے لیے اپنی محنت کی گندم کی صورت میں پہلی کمائی کا تہوار بھی ہے۔ پاکستان کے مقدس سکھ مقامات جیسے ننکانہ صاحب، پنجہ صاحب، کرتار پور اور روہڑی صاحب ہر سال بیساکھی پر دنیا بھر سے آنے والے یاتریوں سے جگمگا اٹھتے ہیں۔ یہ میلہ نہ صرف روحانیت کا مظہر ہے بلکہ پاکستان کے در و دیوار پر بین المذاہب ہم آہنگی، محبت اور انسان دوستی کا روشن پیغام بھی لکھتا ہے۔حسن ابدال کا پنجہ صاحب سکھوں کے لیے ایک عظیم مذہبی مقام ہے۔ روایت کے مطابق یہاں گرو نانک دیو جی نے ایک معجزہ دکھایا تھا جس کی یادگار کے طور پر ایک چٹان پر اْن کے ہاتھ کا نشان موجود ہے۔ بیساکھی کے دوران یہاں ایک عظیم الشان میلہ لگتا ہے جس میں نہ صرف سکھ یاتری بلکہ مقامی مسلمان، ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی شرکت کرتے ہیں، جو بین المذاہب ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے۔ روہڑی صاحب، جو سکھ مذہب کے پہلے گرو نانک دیو جی کی تبلیغی سرگرمیوں سے جْڑا ہوا مقام ہے، بھی بیساکھی کے موقع پر زائرین سے بھر جاتا ہے۔ یہاں گوردوارہ سچا سودا سکھ تاریخ کا ایک اہم باب بیان کرتا ہے۔

  

مزید :

رائے -کالم -