بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی

بلاول بھٹو زرداری پاکستان کی سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کے صاحبزادے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری ایک سیاسی وراثت کے وارث ہیں ۰ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے عظیم لیڈر اور بانیانِ پیپلز پارٹی میں سے تھے، جبکہ ان کی والدہ بینظیر بھٹو دو بار پاکستان کی وزیر اعظم رہیں اور اپنی جان بھی جمہوریت کے لیے قربان کی۔ اس پس منظر کے باعث بلاول زرداری کو بچپن سے ہی سیاست کے ماحول میں پرورش ملی۰ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بلاول کو پیپلزپارٹی کا چیئرمین نامزد کیا گیا، تاہم اْس وقت ان کی عمر کم ہونے کے باعث پارٹی کے عملی امور ان کے والد آصف علی زرداری نے سنبھالے۔ 2014 کے بعد بلاول نے خود سیاسی جلسوں میں شرکت شروع کی اور پارٹی کو نوجوان قیادت کی جانب لانے کی کوشش کی جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔بلاول بھٹو زرداری کی سیاست کو سمجھنے اور پرکھنے سے قبل ہمیں پیپلز پارٹی کی سیاست کا جائزہ لینا ہو گا۔پیپلز پارٹی کا نظریہ روٹی،کپڑا اور مکان پر مبنی رہا ہے۔ پارٹی نے ماضی میں مزدوروں،کسانوں اور غریب طبقے کے لیے آواز بلند کی۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کو مختلف چیلنجز کاسامنا رہا اورگزشتہ چندانتخابات میں پیپلز پارٹی کی قوت صرف سندھ تک محدود ہو گئی ہے اس قوت کو پورے ملک میں پھیلانے کیلئے بلاول بھٹو زرداری کو کرشماتی کردارادا کرنا ہو گا۔ چونکہ بلاول بھٹو نے ابتدائی تعلیم دبئی میں حاصل کی اور بعد ازاں آکسفورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات، فلسفہ اور معاشیات کی ڈگری حاصل کی ان کی تعلیم نے ان کی سوچ کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تشکیل دیا، اور وہ سیاسی گفتگو میں جدید انداز اور دلیل کے ساتھ سامنے آئے یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو کی تقاریر میں روایتی سیاسی لب و لہجہ کم اور بین الاقوامی انداز زیادہ نظر آتا ہے۰وہ انسانی حقوق، جمہوریت، اور نوجوانوں کے مسائل پر کھل کر بات کرتے ہیں ۰ان کی اردو اور سندھی زبان میں روانی کی کمی کبھی کبھار ان کی سیاست کے لیے رکاوٹ سمجھی جاتی ہے، لیکن انہوں نے وقت کے ساتھ اس پہلو میں بہتری لائی ہے۔شروع میں ان کی تقاریر اور سیاسی بیانات میں نو آموزی نمایاں تھی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی طور پر سنجیدہ اور باشعور لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں۔ انہوں نے پارٹی کو نئی سمت دینے کی کوشش کی، خاص طور پر نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقے کو متوجہ کرنے کیلئے وہ اکثر اتحادی سیاست کی بھی پروا نہیں کرتے اور اب بھی وہ سندھ کینال کے مسئلے پر اتحادی حکومت کو چھوڑنے کیلئے بھی تیار کھڑے ہیں۔2018 کے عام انتخابات میں بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور بعد ازاں قومی سطح پر حزبِ اختلاف کی سیاست میں فعال کردار ادا کیا۔ وہ ایوان میں سنجیدہ تقاریر اور مہذب طرزِ گفتگو کی وجہ سے سراہے گئے۰ 2022 میں جب اتحادی حکومت بنی تو انہیں وزیر خارجہ مقرر کیا گیا، جہاں انہوں نے پاکستان کا مؤقف بین الاقوامی سطح پر مؤثر انداز میں پیش کیا۔اس میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ بلاول زرداری ایک جدید، تعلیم یافتہ اور نرم لہجے والے اور مدبر سیاستدان ہیں۔ وہ روایتی سیاست سے ہٹ کر باوقار اور مدبرانہ انداز اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی عوام سے رابطے میں رہتے ہیں اور نوجوان نسل کو متحرک کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
اگر بلاول بھٹو زرداری پارٹی کو ملک گیر سطح پر منظم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو وہ پاکستان کی آئندہ سیاست میں ایک بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کا ویژن، تعلیم، اور عالمی سطح پر تجربہ انہیں ایک ممکنہ وزیر اعظم کے طور پر بھی پیش کرتا ہے۔
لیکن اس سب سے بڑے عہدے پر براجمان ہونے سے قبل بلاول بھٹو کو پارٹی کا دوبارہ بلا مقابلہ چیئرمین منتخب کر لیا گیا ہے جو یقینا ان کیلئے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو کو کچھ چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں پارٹی کو دوبارہ قومی سطح پر فعال کرنا شامل ہے۔پیپلز پارٹی کا کردار ماضی میں قومی سطح پر بہت مضبوط رہا ہے، لیکن اب اس کی طاقت زیادہ تر سندھ تک محدود ہو چکی ہے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں پارٹی کو نمایاں مشکلات کا سامنا ہے۔ بدعنوانی کے الزامات، قیادت کی کمی اور تنظیمی مسائل نے پارٹی کو کمزور کیا، تاہم بلاول نے اسے زندہ رکھنے کیلئے نئی حکمت عملی اپنائی ہے۔
بلاول بھٹو نے پارٹی کو نوجوانوں کے قریب لانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے "یوتھ کنونشنز"، سوشل میڈیا مہمات، اور جدید سیاسی تربیتی پروگرامز شروع کیے تاکہ نوجوان نسل کو پارٹی سے جوڑا جا سکے۔ وہ پارٹی کو صرف سندھ نہیں بلکہ پورے پاکستان میں دوبارہ فعال کرنے کے خواہاں ہیں۔
بلاول کی کوشش ہے کہ پیپلز پارٹی کو ایک جدید اور ترقی پسند جماعت کے طور پر متعارف کرایا جائے۔ بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے نوجوان اور تعلیم یافتہ رہنماء ہیں جو اپنی سیاسی وراثت کو ایک نئے انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ اگر وہ ملک کے عوامی مسائل کو سمجھ کر ان کے حل کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائیں، تو وہ مستقبل میں پاکستان کے بڑے لیڈروں میں شمار ہو سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا مستقبل اب اس بات پر منحصر ہے کہ بلاول کتنی دانشمندی، عوامی رابطے اور مؤثر قیادت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ وہ اپنی والدہ اور نانا کی طرح سیاست میں ایسا کردار ادا کریں کہ عوام کے دلوں میں راج کریں اور پیپلز پارٹی کے روایتی نعرے روٹی کپڑا اور مکان کو عملی جامہ پہنا دیں تو یہ یقینا ان کی سیاست کی معراج ہو گی۔