کیا چین امریکی قرض کو تجارتی جنگ میں بطور ہتھیار استعمال کر سکتا ہے؟ اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟

بیجنگ/واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ شدت اختیار کر گئی ہے، دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر سخت ترین ٹیرف عائد کیے ہیں۔ چین نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ "آخری حد تک لڑنے" کے لیے تیار ہے۔ یہ تجارتی جنگ محض ٹیرف یا برآمدات تک محدود نہیں بلکہ معاشی میدان میں ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی جنگ بن چکی ہے۔ ایسے میں چین کے پاس ایک ایسا ہتھیار موجود ہے جو روایتی تجارتی پابندیوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ، اور وہ امریکی قرض ہے۔
الجزیرہ ٹی وی کے مطابق چین اس وقت امریکہ کا دوسرا سب سے بڑا قرض خواہ ہے جو 760 ارب ڈالر کے امریکی ٹریژری بانڈز رکھتا ہے۔ ماہرین کے مطابق چین یہ قرض فروخت کر کے امریکی ڈالر کی قدر کو کم کر سکتا ہے جس سے امریکہ کی معیشت پر بڑا اثر پڑے گا۔ اس سے امریکی سود کی شرحوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے سرمایہ کاری اور گھریلو اخراجات متاثر ہوں گے۔اس اقدام کو ماہرین معاشیات نے "نیوکلیئر آپشن" کا نام دیا ہے۔
البتہ اس حکمتِ عملی سے چین کو بھی نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ ڈالر کی قدر میں کمی کا مطلب یہ ہوگا کہ چین کے پاس موجود ڈالر اثاثوں کی قیمت کم ہو جائے گی، جبکہ یوان کی قدر بڑھ جائے گی جو چینی برآمدات کو مہنگا بنا دے گا۔ دوسری جانب امریکی فیڈرل ریزرو اس اقدام کا مقابلہ کرنے کیلئے کوانٹیٹیٹیو ایزنگ کا استعمال کرسکتا ہے۔ اس اقدام کے ذریعے مارکیٹ میں سرمائے کا اضافہ کر کے اقتصادی سرگرمیوں کو بحال کیا جاسکتا ہے، امریکی حکومت اپنے بانڈز خود خرید لے گی ، شرح سود میں کمی کرکے سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی کوشش کرے گی۔ تاہم تجارتی پالیسی میں آئے روز کی تبدیلیوں کے باعث امریکی مالیاتی پالیسی سازوں کے لیے مستقبل کی منصوبہ بندی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ صارفین میں بھی بے چینی بڑھ رہی ہے اور مالی عدم استحکام کے خدشے پر اخراجات میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
امریکہ میں صارفین کا اعتماد گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 11 فیصد کم ہوا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ عوامی سطح پر اس تجارتی جنگ کے اثرات کا خوف بڑھ رہا ہے۔