میاں نظر آتی ہے، بیوی نظر آتا ہے
پچھلے دنوں مجھے میرا ایک بچپن کا دوست ملا، مَیں نے اس سے پوچھا کہ شادی کر لی تو کہنے لگا: ”ہاں! بیوی بن چکا ہوں“۔ مَیں نے غور سے اس کی طرف دیکھا، تبدیلی¿ جنس کے کوئی ایسے آثار نظر نہیں آرہے تھے، جو اس کو خاوند کی بجائے بیوی کا شرف دلا سکتے، پھر اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ کہیں....؟ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے میری سوچ بھانپتے ہوئے کہا: ”نہیں نہیں ویسا نہیں ہے، جیسا تم سمجھ رہے ہو“.... تو پھر کیسا ہے؟ مَیں نے پوچھا: ”بس ایسا ہے“۔ اُس نے مختصر سا شعر سنایا اور معاملہ ختم کر دیا:
”لیلیٰ نظر آتا ہے، مجنوں نظر آتی ہے“
مردوں اور پاکستانی عوام کی قسمت ایک جیسی ہی ہے۔ نکاح کے بعد مرد کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا اور الیکشن کے بعد عوام کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ نکاح اور الیکشن سے پہلے دونوں سے ہی پوچھا جاتا ہے۔ نکاح اور الیکشن بالترتیب خاوندوں اور عوام کے لئے واحد موقع ہوتے ہیں، جب وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کر سکتے ہیں، مگر چاہے جتنا بھی سوچ سمجھ کر فیصلہ کیوں نہ کر لیں، بعد میں دونوں کی حیثیت ویسی ہی ہو جاتی ہے، جیسی آمریت کے دور میں عوام کی ہوتی ہے۔ مارشل لاءکے دور میں چاروں طرف سے عوام پستے ہےں۔ مرد کی ازدواجی زندگی میں مارشل لاءاس وقت لگتا ہے، جب اس کی ساس اس کے گھر آتی ہے۔ بیوی اور ساس کی غیر موجودگی میں اس کی حالت موجودہ جمہوری حکومت میں وزیروں کی طرح ہو جاتی ہے، جبکہ بیوی کی موجودگی میں مرد کی حالت جمہوری دور میں حکومت کی طرح ہو جاتی ہے۔ بقول شرمیلا فاروقی .... ”اگر کسی کی بیوی بھاگ بھی جائے تو الزام حکومت اور گالی صدر کو پڑتی ہے“.... یہاں تک کہ اگر کسی کی بیوی اسے پیٹ بھی ڈالے تو بھی اس کو اپنی بیوی کی اتنی ہی تعریف کرنا پڑتی ہے، جتنی آمروں کے ادوار میں ان کی کی جاتی ہے۔
سیاستدان کہتے ہیں کہ ملک کو جتنا نقصان پہنچا آمروں کے ادوار میں پہنچا، مگر میرا دوست کہتا ہے.... ”میری زندگی میں جتنا بھی نقصان پہنچا، سب بیوی کی وجہ سے پہنچا“.... مرد کی ساری زندگی رحم و کرم کے گرد گھومتی ہے۔ پیدا ہوتا ہے تو والدین کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، کچھ بڑا ہوتا ہے تو اساتذہ کے رحم و کرم پر (یہ اور بات ہے کہ ”مار نہیں پیار“ کے بعد اساتذہ ہی اس کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں).... جوان ہوتا ہے تو ضرور کسی نہ کسی محبوبہ کے رحم و کرم پر ہو جاتا ہے۔ مرد کو جب کسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے، اس کا اسے چھوڑنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے، جتنا پولیس والوں کے لئے رشوت چھوڑنا۔ محبت کے معاملے میں مرد اس قدر عورت کے رحم و کرم پر ہوتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے، اس سے پیچھا چھڑا سکتی ہے۔ اب یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ کون سا طریقہ اختیار کرتی ہے۔ وہ چند جذباتی باتیں کہہ کر آپ کو ڈوب مرنے کا بھی کہہ سکتی ہے، مینار پاکستان سے چھلانگ لگانے کا بھی، کنپٹی پر پستول رکھوا کر اسے پارہ پارہ بھی کروا سکتی ہے اور زہر بھی کھلوا سکتی ہے۔
مَیں گارنٹی سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ محبت میں اس قدر پاگل ہو چکے ہوتے ہیں کہ آپ کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ابھی آپ کے گھر والے آپ کی رسم قل خوانی میں مصروف ہوتے ہیں کہ آپ کی محبوبہ کسی اور کو اپنے رحم و کرم پر کرنے کے لئے اس کے گھر پہنچ چکی ہوتی ہے.... بیوی بن کر!.... شادی سے پہلے شاید ہی کوئی ایسا مرد ہو جسے شادی کی خواہش نہ ہو، مگر شادی کے بعد بھی شاید ہی کوئی ایسا مرد ہو، جسے ایک اور شادی کی خواہش ہو۔ دنیا میں 90 فیصد مرد بے وقوف ہوتے ہیں، جبکہ 10 فیصد شادی نہیں کرتے، جبکہ بے وقوف خواتین وہی ہوتی ہیں، جو شادی نہ کریں۔ عورت کے نام سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کی شادی ہو چکی ہے یا نہیں! دنیا میں جتنی خواتین شادی کرتی ہیں، ان میں سے بیشتر اپنے نام کے ساتھ اپنے خاوند کے نام کا لاحقہ لگا لیتی ہیں، صرف وہ خواتین اپنا نام بدلنا پسند نہیں کرتیں، جنہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ان کی شادی کامیاب نہیں ہوگی۔
پہلے لوگ عورت کو اس کے میاں کے نام سے جانتے تھے کہ فلاں کی بیوی! مگر اب خاوند کو بیوی کے نام سے پہچاناجاتا ہے کہ وہ ”دیکھو مرید“.... جبکہ ہمارے زرداری صاحب تو اپنی اہلیہ مرحومہ کے نام سے ہی جانے جاتے ہیں۔ شادی شدہ خواتین کو پہچاننے کی بہت سی علامات ہو سکتی ہیں، مگر شادی شدہ مرد شکل سے ہی پہچانے جاتے ہیں، جہاں 24 گھنٹے 12 بجے ہوتے ہیں۔ شادی کے بعد آپ کی بیوی آپ کی پہچان اس طرح بدل دیتی ہے کہ شادی سے پہلے آپ جو اپنے والدین کے بیٹے ہوتے ہیں، بعد میں اپنی بیوی کے میاں ہی رہ جاتے ہیں۔ آپ کے بہن بھائی آپ کو بھابھی کا گھر والا کہنا شروع کر دیتے ہیں، جبکہ عزیز واقارب یہ تو نہیں کہتے کہ ”جورو کا غلام“، لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ دونوں میں بہت پیار ہے۔ دراصل معرز الفاظ میں ان کے کہنے کا مطلب غلام ہی ہوتا ہے!
بہرحال مَیں کئی دن اس شش و پنج میں پڑا رہا کہ میرا دوست بیوی کیسے بن گیا؟ مگر ایک دن جب بغیر فون کئے اس کے گھر پہنچا تو الجھن دور ہوگئی۔ موصوف واشنگ مشین لگائے کپڑے دھونے میں مصروف تھے، مجھے دیکھ کر حیران ہوئے۔ مجھے بیٹھنے کا کہا اور قدرے شرمندگی سے گویا ہوئے: ”ابھی برتن بھی دھونے ہیں“۔ مَیں نے بھابھی کے بارے میں پوچھاتو اس نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا ،جہاں صاف نظر آرہا تھا کہ موصوفہ ٹی وی پر ڈرامہ دیکھنے میں مصروف ہیں۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ میرا دوست واقعی ”بیوی“ بن چکا ہے، بلکہ ضرورت سے زیادہ ہی بیوی بن چکا ہے۔ ٭