اتحاد اور تنظم کیوں نہیں؟

اتحاد اور تنظم کیوں نہیں؟
اتحاد اور تنظم کیوں نہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app




ملک کے ایک معروف کمپیئر ایک ٹی وی چینل پر آزادی پاکستان کے ابتدائی ایام کو یاد کر رہے تھے۔ ان کے والد جو ان کے بقول 1936ءسے اپنے نام کے ساتھ پاکستانی لکھ رہے تھے، انہیں وزارت بحالی مہاجرین نے کئی روز اپنے دفتر کے چکر لگوائے۔ کئی بار ان کی توہین کی اور ان کو اپنے کنبی سمیت سرچھپانی کے لئے کافی خوار ہونا پڑا۔ وہ کرب آمیز لمحات یاد کرتے ہوئے کمپیئر کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ یقیناً اس مہاجر خاندان کو یوم آزادی کا اجالا داغ داغ تو لگا ہو گا اور وہ سحر بہت شب گزیدہ بھی محسوس ہوئی ہو گی، لیکن اس وقت بھی اگر عبدالعزیز پاکستانی کو یہ کہا جاتا کہ یہاں تمہارے سر چھپانے کے لئے مکان نہیں ہے۔ تم ہندوستان واپس جانا چاہتے ہو تو چلے جاﺅ تو ہمیں اپنے ایمان کی حد تک یقین ہے کہ وہ اسی وطن عزیز کی خاک اور کھلے آسمان کو ترجیح دیتے۔
اس دلخراش واقعہ سے یوں سمجھ لیجئے کہ بس اسی وقت سے بے انصافی اور جبر و استحصال کے بیورو کریٹک نظام کی بنیاد رکھ دی گئی تھی، جس نظام کو آج سٹر ا نظام قرار دے رہے ہیں، اس نظام کو تبدیل کرنے کے لئے سونامی لانے کی خوشخبرےاں سنا رہے ہیں۔ وہی جذباتی قوم آج اس نظام کی تبدیلی کے نعروں اور تقریروں پر جھوم رہی ہے۔ قوم پھر توقع باندھ رہی ہے کہ شائد یہ نیا چہرہ ہی ہمارا نجات دہندہ ثابت ہو، شائد....؟ یوم آزادی کے موقع پر ٹی وی چینل بد ل بدل کر دیکھتا رہا۔ اخبارات کے سبھی ایڈیشن اور ادارتی صفحات چھان مارے، کیا کیا تجزیے تھے جو دکھائی اور سنائی دے رہے تھے اور کیا کیا پندو نصائح تھے، جو کالموں اور مضامین میں پرو دئیے گئے تھے۔ ان میں اپنی خرابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ بھی تھا اور کہیں کہیں کامیابیوں کا تذکرہ بھی تھا۔ ایک ٹی وی چینل پر ایک پروگرام دیکھ کر اطمینان ہوا۔ اس میں بنیادی سوال یہ رکھا گیا کہ پاکستان کی تین بڑی کامیابیاں آپ کے خیال میں کیا ہیں؟ اس پروگرام کو دیکھ کر امید کی کرن پیدا ہوئی کہ وہ میڈیا جو سارا سال عموماً سنسنی خیزی ، خوف، اور نا امیدی پھیلاتا ہے، وہی میڈیا اپنے ناظرین میں آج امید اور جینے کی امنگ بھی پیدا کر رہا ہے۔ میڈیا کے قبلہ میں یہ تبدیلی بے شک بہت کم سہی، لیکن ایک مبارک اور پر امید اقدام لگ رہی ہے۔
روایت یوم آزادی کی مناسبت سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے زرین اصولوں یقین محکم، اتحاد اور تنظیم کا ذکر بھی بہت زور شور سے کیا گیا۔ ایمان اور یقین محکم تو ہمیں ورثے میں مل گیا تھا اسی لئے ہمیں اس کا حقیقی شعور حاصل نہیں ہوسکا، لیکن اتحاد اور تنظیم ہم نے خود اپنے اندر پیدا کرنا تھا جو بد قسمتی سے ابھی تک ہم پیدا نہیں کر سکے۔ اس بات کا پرچار تو بہت کیا جاتا ہے اور دوسروں کو ہی اس ناکامی کے لئے مور د الزام ٹھہرایا جاتا ہے، لیکن کبھی ہم نے اتحاد اور ڈسپلن کے فقدان کے اسباب پر بھی غور کیا؟ میرے خیال میں پہلا بیان کردہ واقعہ ہی اس کے حقیقی اسباب کی طرف روشنی ڈالتا ہے۔ جب پاکستان کے وسائل اور اثاثوں پر ایک قلیل اور محدود گروہ کا قبضہ ہو گیا جو بعد میں اشرافیہ کہلانے لگا تو اس مراعات یافتہ طبقے کا محروم طبقے کے ساتھ اتحاد کےسے ہو سکتا تھا۔ اسی روز سے Have اور Have not والوں کی جنگ شروع ہو گئی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ جنگ رکنے یا کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی۔

 ستم بالائے ستم یہ کہ وسائل، دولت اور اختیارات پر ناجائز قابض ہونے والا یہی طبقہ درس اخلاقیات دینے والے تمام ذرائع پر بھی قابض ہوتا گیا اور اپنے سوا سب کو اتحاد اور تنظیم کا درس بھی دینے لگا، حالانکہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار بھی یہی طبقہ کر رہا تھا۔ اس طبقے کی منافقت اور امیرو غریب کے درمیان اس وسیع ہوتی خلیج کا ذکر کرتے ہوئے تو اقبالؒ نے یقین سے خدا کے حضور یہ الفاظ کہلوائے تھے:
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
65 برسوں سے وطن عزیز میں طبقوں کے تصادم کی یہی وجہ ہے اور نہ جانے کب تک یہ تصادم رہے گا۔ ملک ایک بار پھر ایک نئے الیکشن کی جانب بڑھتا نظر آرہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی وہی دلفریب نعرے ہیں، وہی نظام بدلنے کی دھواں دھار تقریریں ہیں۔ نکتہ شناسوں کے وہی دلآویز تجزیے ہیں۔ وہی لفظوں کی جنگ ہے۔ اس جذباتی قوم کے جذبے کی بھی داد دیجئے۔ ملک لوٹنے والوں کے حق میں بھی جلوس ہی نکال دیتی ہے اور تبدیلی کی نوید سنانے والوں کی واہ واہ کرتی ہے۔ الیکشن کے پے درپے تجربوں سے تو یہ لگتا ہے کہ اس قوم کو تو بس ایک دن تسلی چاہیے۔ یہ پھر کشاں کشاں چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ نہ پینے کا صاف پانی مانگتی ہے، نہ بجلی، نہ پٹرول، چلتی جاتی ہے۔ شومیءقسمت، الیکشن کے پہلے برس ہی اس کو اپنے جذباتی فیصلے پر ندامت محسوس ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ زبان وفکر کی کھجلی لاحق ہو جاتی ہے۔ قوم کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ نادیدہ قوتیں اس قوم کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ہاتھ کر گئی ہیں۔یہ عظیم جذباتی قوم65 برسوں میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں ناکام رہی ہے کہ:
اندھیری رات ہے، سایہ تو ہو نہیں سکتا
یہ کون ہے جو میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے؟
قوم نے جس روز اس سوال کا جواب ڈھونڈ لیا، فلاح پا جائے گی۔  ٭

مزید :

کالم -