ہتکِ عزت ....!

خواتین وحضرات !تازہ خبر یہ ہے کہ پنجاب کے سابق نگران وزیراعلیٰ اور کرکٹ بورڈ کے کئی مرتبہ سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے تحریک پاکستان کے چیئرمین عمران خان کے خلاف ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کردیا ہے۔ درخواست گزار کی طرف سے ایک ارب روپے ہرجانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے ایک پریس کانفرنس میں ان پر الزام لگایا ہے کہ ”انتخاب“ میںدھاندلی کے ایک اہم کردار ہیں۔ عمران خان کے ان الزامات سے ان کی ساکھ، نیک نامی اور شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے“۔ہمیں اس سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ ماضی قریب میں جب نجم سیٹھی کو کرکٹ بورڈ کی چیئرمین شپ سے بار بار اٹھایا اور گرایا گیا تو کیا اس سے ان کی نیک نامی ساکھ اور شہرت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ جس عزت سے وہ نکالے جاتے رہے اور جس ڈھٹائی سے وہ بار بار اچھل کر چیئرمین کی کرسی پر بیٹھتے رہے تو اس بارے میں انہوں نے کسی پر الزام عائد نہیں کیا۔ وہاں ان کی غیرت نے جوش کیوں نہیں مارا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب نگران وزیراعلیٰ پنجاب، یعنی ملک کے سب سے بڑے صوبے کے سب سے بڑے عہدے سے ہٹنے کے بعد وہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنائے گئے تو انہوں نے اسے اپنی عزت کا مسئلہ کیوں نہ بنایا کہ مَیں تو پنجاب کا وزیراعلیٰ رہا ہوں ، مجھے اب اس سے بڑا عہدہ ملنا چاہئے۔ یہ میری ساکھ و شہرت اور نیک نامی کے خلاف ہے۔
خواتین وحضرات! پاکستان میں ہتک عزت کا معاملہ بھی بڑا دلچسپ ہے اور اس سلسلے میں دعوے اور ہرجانے کی بڑی بڑی رقمیں طلب کرنا اس سے زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ رقم ادا کردینے کے بعد درخواست گزار کی شہرت ،عزت، ساکھ اور نیک نامی ایک دم بحال ہو جاتی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو آپ کسی بھی بڑے نامور شخص کو بھرے بازار اس کی نیک نامی اور شہرت پر داغ لگادیں اور ساتھ ہی اسے ہرجانے کی رقم تھما دیں۔ کہ لو بھئی یہ رہی تمہاری عزت اور شہرت اور یہ رہی اس کی قیمت۔
اس سے قبل سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بھی اربوں روپے میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے دعوے دائر کرنے کی روایت خاصی پرانی ہے۔ اگر ہم نجم سیٹھی اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی عزت پر حرف آنے پر ہرجانے کو دیکھیں تو ایسے کئی اور ہتک ِ عزت کے دعوے کھل جائیں گے۔ مثلاً گزشتہ دنوں طاہر القادری نے جو پوری قوم اور اٹھارہ کروڑ لوگوں کی ہتکِ عزت کی ہے کہ ”کوئی انقلاب لائے بغیر واپس جائے تو اسے شہید کردیا جائے “۔بعدازاں وہ اس بات سے مکر گئے اور کہا کہ اخبارات نے میرے بیان کو غلط شائع کیا ہے۔ جب متعلقہ ٹی وی چینلوں نے ان کے منہ سے ادا کئے گئے یہ الفاظ تواتر سے چلائے، تو انہوں نے کہا ”مَیں نے تو مذاق سے کہا تھا“۔ پاکستان کے عوام سے ایساسنگین اور اوچھا مذاق کرنے پر کیا اٹھارہ کروڑ عوام کی عزت ساکھ اور شہرت متاثر نہیں ہوئی۔ اسے مذاق کرنا نہیں، مذاق اڑانا کہتے ہیں۔
ایسے ہی شیخ رشید صاحب کی شہرت کوٹی وی چینل اکثر نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ اگر وہ ہتک عزت کے دعوے شروع کردیں تو مال ومال ہوجائیں۔ اگر آپ غور کریں تو سابق صدر آصف علی زرداری پر جتنے حملے ٹی وی چینلوں پر ہوئے، موبائل فون پر لطیفے بنے، ٹی وی پروگرام میں ان کے کیری کیچرز بنائے گئے اور نجی محفلوں میں ان کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی جاتی رہیں تو اس حساب سے انہیں ہر روز ایک دعویٰ دائر کرنا چاہئے تھا اور ہرروز لاکھوں کروڑوں روپے سمیٹنے چاہئے تھے۔ اسی طرح چودھری برادران کاٹی وی پروگراموں میں جس طرح تمسخر اڑایا جاتا ہے اس پر ہتک عزت کا دعویٰ آرام سے بن سکتا ہے۔
اگر ہم پاکستان کے تمام سیاستدانوں کے بیانات دیکھیں تو جس طرح وہ ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں کیچڑ اچھالتے ہیں تو اس حساب سے اربوں روپے کمائے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ٹی وی چینلز پر چلنے والے تبصرے اور ٹاک شوز جو سات بجے شام سے بارہ بجے رات تک چلتے رہتے ہیں کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہر ہر چینل پر لوگوں کی، شرکاءکی اور سیاسی جماعتوں کے سربراہان وممبران سے متعلق ایسی بے شمار باتیں ہوتی ہیں، جو بڑی آسانی سے ہتک عزت کے زمرے میں آسکتی ہیں۔ بعض اوقات توذاتیات تک نوبت آجاتی ہے۔ اس کے علاوہ چینلوں پر جو نام نہاد مزاحیہ پروگرام چلتے ہیں، جن میں شرکائ، سیاسی قائدین اور معززین کے بارے میں سستا مذاق ، بازاری پھکڑ بازی اور گھٹیا سطح کا مذاق کیا جاتا ہے، وہ سارے کا سارا ہتک آمیز اور ہتک عزت پروگرام ہوتا ہے۔ اگر ان سب ہتک عزت پروگراموں پر دعویٰ دائر کیا جائے اور اسی طرح اربوں میں رقم طلب کی جائے جیسا کہ نجم سیٹھی نے دعویٰ دائر کیا ہے تو ایک اچھی خاصی رقم جمع ہوسکتی ہے جس سے کم ازکم ملک سے بجلی کے بحران کے خاتمے کا اہتمام ہوسکتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اخبارات میں بننے والے کارٹون کس زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں تو سیاسی شخصیات کے کارٹون بنائے جاتے ہیں اور شکلیں بگاڑ بگاڑ کر پیش کی جاتی ہیں، مگر کبھی کسی جانب سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ تازہ ہتک عزت کے دعوﺅں کا کیا بنتا ہے۔ کون معافی مانگتا ہے اور کون رقم ادا کرتا ہے؟ ویسے ہم نے اپنی ساری عمر میں ایسا ایک بھی ایسا دعویدار نہیں دیکھا جس کو اچھی خاصی رقم ملی ہو یا کسی نے ہتکِ عزت کے عوض رقم ادا کی ہو۔