مشاہداللہ خان، سیاسی عسکری قوت میں اختلاف کی کوشش والی لابی کا حصہ؟
تجزیہ : چودھری خادم حسین
سینیٹر اور وفاقی وزیر مشاہداللہ خان سے اتنی غیر ذمہ داری کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ سینئر آدمی ہیں لیکن بسااوقات زیادہ بولنے کی عادت بھی خراب کرتی ہے اور جب غیر ملکی میڈیا توجہ دے تو ہمارے حضرات کی حالت غیر ہو جاتی ہے اور وہ بہت سی ناگفتی کہہ گزرتے ہیں، اب تو خود ان کو بھی تردید کرنا پڑتی ہے تاہم سیانے کہتے ہیں سمجھدار وہ ہوتا ہے جو بولنے سے پہلے سوچ لے، اس سازش کہانی کی تو ہر طرف سے تردید ہوگئی ہے اگر مشاہد اللہ خان کو سنی سنائی بات پر یقین بھی آگیا تھا تو سیاسی حکمت عملی کا تقاضا تھا کہ وہ منہ نہ کھولتے بلکہ براہ راست وزیراعظم سے بات کرکے تصدیق کرلیتے، ان کا یہ عمل نہ کرنا ثابت کرتا ہے کہ ان کو ایسی گفتگو کے نتائج کا علم یا احساس ہی نہیں تھا، اب وہ بھی مالدیپ چلے گئے ہیں، ان کو شاید یہ احساس ہی نہیں کہ ان کے اس انٹرویو کے اثرات کیا مرتب ہوں گے؟ اب تو شاید خود ان کو کٹہرے میں کھڑے ہوکر جواب دہی کرنا ہوگی اور پھر خود ہی رضاکارانہ طور پر اپنے لئے سزا تجویز کرنا ہوگی۔ دوسری صورت میں ان کو وزیراعظم کی طرف سے تادیب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یوم آزادی کتنے پرجوش اور کتنے بہتر انداز میں منایا گیا۔ مرکزی تقریب میں سبھی شاداں و فرحاں تھے، پوری سیاسی اور عسکری قیادت موجود تھی۔ یہ احساس اجاگر ہو رہا تھا کہ سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحہ پر ہے لیکن مشاہد اللہ خان کے انٹرویو نے قیاس آرائیوں کے دریچے کھول دئیے اور اب ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے، ایسے الزام تو گزشتہ سے پیوستہ برس سے لگتے چلے آرہے ہیں لیکن کسی نے بھی ایسے تصدیقی انداز میں بات نہ کی تھی۔ اب تو وزیراعظم اور ایوان اقتدار کے کئی ’’ہمدرد‘‘ ہیں جنہوں نے خود مشاہد اللہ خان کو سازش کا حصہ قرار دیا جو سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان تعلقات خراب کرنے کے لئے جاری ہے اور اس حوالے سے سابق جنرلوں کے نام لے لے کر ان کے خلاف کارروائی کیلئے کہا جا رہا ہے، جیسے سوشل میڈیا پر یہ بتایا جا رہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کو کسی سابق جنرل نے مشورہ دیا ہے کہ این ایل سی کا فیصلہ بہت سراہا گیا اور اس سے فوج کی عزت بڑھی ہے، اس لئے ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی درخواست میں نامزد حضرات کے خلاف اس معاملے کی سماعت این ایل سی کی طرز پر آرمی قوانین کے تحت کرلی جائے اور ان کو بھی سزا دی جائے، اس سے مزید عزت بڑھے گی۔
مشاہد اللہ خان کو اتنا احساس ہو ہی نہیں سکتا کہ وزیراعظم کے لئے کتنی مشکل پیدا ہوگئی ہے اور اب اس کا ازالہ مالدیپ جانا نہیں تھا، استعفیٰ پیش کرنا تھا جو ان کو اب بھی کرنا چاہئے ورنہ یہ بتانا ہوگا کہ انہوں نے کس کے بہکانے پر ایسا کیا۔
ادھر ایم کیو ایم اور اس سے پہلے قصور کا سانحہ میدیا کے لئے مرکزی خبر تھے کہ اب مشاہد اللہ خان آگئے اور یہ سب پیچھے چلا گیا۔ اسی میں محترم جسٹس (ر) وجیہہ الدین بھی شامل ہیں جنہوں نے تحریک انصاف میں جمہوریت لانے کا اعلان کر دیا اور کہا ہے کہ ٹریبونل نے جن حضرات کو پارٹی سے فارغ کرنے کو کہا ان حضرات کو ناک الٹی طرف سے پکڑ کر وہی عہدے دے دئیے گئے ہیں جہاں سے ان کو ہٹایا گیا تھا۔ جسٹس (ر) نے تحریک انصاف کو اصل مقام پر لانے کی جدوجہد کا اعلان کیا ہے، یوں تحریک انصاف میں بھی کشمکش بڑھنے کا امکان ہے، آنے والا وقت مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔
سانحہ قصور کی تفتیش میں پیش رفت ہو رہی ہے، مدعی بڑھے ہیں تو ملزموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، ابھی تک مرکزی ملزم فرار ہیں اور کچھ قوتیں حرکت میں ہیں جو اس معاملے کو دبانے کی فکر میں ہیں جبکہ عوامی رائے سخت سزاؤں کے حق میں ہے۔ مشترکہ تفتیشی ٹیم کی تفتیش جاری ہے، عوام کا مطالبہ اس کیس کو فوجی عدالت میں بھیجنے کا مطالبہ ہے، ایسی صورت میں ملزموں کے خلاف گواہ بھی ہمت کریں گے، میڈیا اس سانحہ کو فراموش نہ کرے۔