سو گز رسہ سرے پہ گانٹھ

خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، اس لئے ایم کیو ایم کے اچانک استعفوں کی ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف ہے جس نے استعفے دینے کے بعد پارلیمنٹ میں بیٹھنے کو ترجیح دی اور یوں ایم کیو ایم کے پارلیمنٹ میں واپسی کا راستہ کھول دیا، وگرنہ جس طرح کی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے تقریریں کی تھیں اورجس طرح انہوں نے پاک فوج کو للکارنے کے ساتھ ساتھ بھارت کے گن گائے تھے ان کی پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ کسی طور بھی پارلیمنٹ میں واپسی کے مستحق نہ تھے!
یقین جانئے ہمیں تو یہ الطاف حسین، مولانا فضل الرحمٰن، آصف علی زرداری اور نواز شریف صاحب کی عمران خان کے خلاف سازش لگتی ہے کہ وہ ان کے حامیوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ اگر انہوں نے تحریک انصاف کی جانب سے پارلیمنٹ اور پی ٹی وی کی عمارت پر حملے کے جرم کو معاف کرتے ہوئے ان کی پارلیمنٹ کی واپسی پر کمپرومائز کیا ہے تو انہیں ایم کیو ایم کے ہر قصور کو فراموش کرتے ہوئے اس کی پارلیمنٹ میں واپسی پر بھی کمپرومائز کرنا پڑے گا.....اگر انہوں نے جسٹس وجیہہ الدین کے تحقیقاتی ٹربیونل کے فیصلے کے برعکس جہانگیر ترین، علیم خان، نادر لغاری اور پرویز خٹک کی کرپشن کو قبول کرلیا ہے تو پھر انہیں ایم کیو ایم کے بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلرز اور قبضہ گروپوں کو بھی قبول کرنا پڑے گا!
البتہ میڈیا کا تحریک انصاف ونگ اس بات پر جز بز ہو رہا ہے کہ ایم کیو ایم کے استعفے منظور کیوں نہیں کر لئے جاتے اور پاکستان تحریک انصاف بھی استعفے کیوں نہیں دے دیتی تاکہ ملک میں یا تو نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جا سکے یا پھر آمریت کا پودا سینچا جا سکے ۔ ہم ایسے تمام تجزیہ کاروں سے ہاتھ باندھ کر گزارش کریں گے کہ کمنٹری باکس میں بیٹھ کر بتانا کہ گیند کو کیسے کھیلنا چاہئے اور اتر کر گراؤنڈ میں جا کر اس گیند کو کھیلنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ، تب انہیں پتہ چلتا ہے کہ جو کچھ وہ کمنٹری باکس میں بیٹھ کر تجویز کر رہے تھے وکٹ پر آنے والی گیند کو ویسے نہیں کھیلا جا سکتا ۔ اس لئے انہیں اپنے تجزیوں میں سیخ پا ہونے کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور ایم کیو ایم کو اسی طرح ایک موقع اور دینا چاہئے جس طرح انہوں نے تحریک انصاف کو دلوایا تھا!
قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے استعفے دینے سے قبل خطاب کرتے ہوئے کراچی آپریشن کو ایک اندھے شخص کا اندھیرے میں کالی بلی ڈھونڈنے کے مترادف قرار دیا تھا ، انہوں نے کہا کہ مزے کی بات یہ ہے کہ کالی بلی وہاں ہے ہی نہیں...اس سے قبل ایک مرتبہ آصف زرداری نے بھی جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے کہا تھا کہ بلا ہر بار آکر دودھ پی جاتا ہے ، اس دفعہ نہیں جانا چاہئے !
ایم کیو ایم کی بلی اور پیپلز پارٹی کا بلا مزیدار تشبیہیں ہیں، اس سے ان کے ذہنی میلان کا پتہ چلتا ہے کہ بلی اور بلا جب پھنس جائیں تو جھٹ سے قریبی درخت پر چڑھ جاتے ہیں اور ان کا پیچھا کرنے والا بے یارومددگار نظر آتا ہے اور اگر قریب میں کوئی درخت دستیاب نہ ہو اور بچت کی کوئی راہ باقی نہ رہے تو بلی ہو یا بلا، دونوں اپنے حملہ آور پر جھپٹ پڑتے ہیں....بلاشبہ کراچی میں جاری آپریشن پر ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی نے کچھ ایسے ہی ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے ، آصف زرداری راہ فرار اختیار کرگئے ہیں اور ایم کیو ایم درخت پر چڑھ گئی ہے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کراچی میں جاری آپریشن کو کس حد تک نرم کرتی ہے کیونکہ انتظامی معاملات کے ساتھ ساتھ حکومت کو سیاسی معاملات کو بھی درست رکھنا ہے ، اس اعتبار سے یہ حکومت کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح سے انتظامی اور سیاسی اختیارات میں توازن پیدا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے ، اسے ثابت کرنا ہوگا کہ اس نے ایم کیو ایم کو بھی راضی کرلیا ہے اور رینجرز کو بھی ناراض نہیں ہونے دیا ہے !
جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ رینجرز کا کراچی میں کوئی سیاسی ایجنڈا بھی ہے تو ہم تو اسے نہیں مانتے کیونکہ حکومت اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی کیسے مارسکتی ہے ؟....اس لئے ایم کیو ایم کی اس سیاسی نعرے بازی سے حکومت متاثر ہونے والی نہیں ہے ، جس طرح اس سے قبل وزیر اعظم نواز شریف نے سخت تقریر کرنے پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری سے ملاقات سے انکار کردیا تھا، ہاں البتہ ایم کیو ایم کو استعفوں کے بعد ایوان میں واپس لاکر وہ تحریک انصاف کو آئینہ ضرور دکھائیں گے، تحریک انصاف کو تیار رہنا چاہئے۔