پاکستان 70برس کا ہوگیا
پاکستان 70برس کا ہوگیا، اس کا احساس نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی تقریب میں شدت سے ہوا جہاں تحریک پاکستان کے بزرگ کارکنوں کا اجتماع تھا۔ ان معمر بزرگوں میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو سیڑھیاں چڑھ کر فرسٹ فلور پر واقع مرکزی ہال میں جاسکے، ہر کوئی لفٹ کا متلاشی تھا۔ حد تو یہ ہے کہ سٹیج پر جانے کے لئے بھی Stepsکی بجائے ایک ڈھلوان سلائیڈ کو استعمال کرتے پائے گئے۔ دیکھا جائے تو آج کے پاکستان کی بھی یہی حالت ہے، 80کی دہائی میں اسے جس خاموش جنگ کا سامنا کرنا پڑا اس کے نتیجے میں آج تیس برس بعد کا پاکستان بری طرح تھک چکا ہے اور زخموں سے چور چور نظر آتا ہے۔ تحریک پاکستان کے معمر کارکنوں کی اور خود پاکستان کی حالت ایک سی ہو چکی ہے، اگر کوئی فرق ہے تو یہ کہ اللہ کے فضل سے پاکستان کو بقا ہے اور تحریک پاکستان کے ان مایہ ناز کارکنوں کی اولادیں تھکے ہوئے اور زخموں سے چور پاکستان کا سہارا بن کر اسے دوبارہ سے مضبوط اور توانا بنانے کی دھن میں مگن ہیں۔ پاکستان کی قسمت انشاء اللہ سنورے گی اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین سابق صدر رفیق تارڑ کے بقول وہ دن دور نہیں جب اقوام عالم پاکستان سے رہنمائی لے کر چلتی نظر آئیں گی۔
یہ واحد تقریب تھی جہاں پاکستان اس کی اصلی حالت میں دیکھا جا سکتا تھا، سروں پر جناح کیپ نظرآرہی تھی جن پر پاکستانی چاند ستارے جھلملا رہے تھے۔ جناح کیپ کے علاوہ دیگر اقسام کی کیپ بھی دیکھنے کو ملیں جو ماضی کا پتہ دیتی تھیں۔ آج ان کا رواج ختم ہوگیا ہے اور ہمارے سروں پر کچھ نہیں ہے ، چھت تو دورکی بات ہے آسمان بھی نہیں ہے!
نظریہ پاکستان میں وہ کرسی جس پر کبھی قائد اعظم محمد علی جناح تشریف فرما ہوئے تھے ، خالی پڑی ہوئی ہے ۔ ہماری آج کی سیاسی قیادت میں سے کوئی بھی اس اہل نہیں کہ پورے اعتماد اور فخر کے ساتھ اس کرسی پر حق جانشینی جتا سکے، قائد اعظم کی کرسی ایک طرف اور پوری قوم ایک طرف، تبھی تو رفیق تارڑ صاحب نے کہا کہ پوری قوم کرپشن سے پریشان ہے۔ حیرت ہے کہ پاکستانی قوم کرپشن سے پریشان بھی ہے اور کرپشن کرتی بھی جا رہی ہے اور احساس زیاں ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ٹرسٹ کے منتظمین نے کرسی پر پلاسٹک چڑھایا ہوا ہے تو ہم نے بحیثیت قوم اپنے ماضی پر پلاسٹک چڑھادیا ہوا ہے، اس کو برتنے اور کام میں لانے کا تردد ہم میں نہیں۔ اسی طرح قائد اعظم کی کرسی کے گرد ایک خوبصورت زنجیر بھی لگادی گئی ہے ، کسی کو اس کرسی کو چھونے کی اجازت نہیں ، ہم نے اپنے آئین کو بھی ایسی ہی دیدہ زیب اور دلکش زنجیر میں جکڑا ہوا ہے، مجال ہے جو کبھی اسے کھول کر قانون کی بالادستی اور شہریوں کی برابری والی شقیں پڑھی ہوں۔ ٹرسٹ کے منتظمین کو چاہئے کہ ٹرسٹ کے چیئرمین کو یہ اعزاز بخشا جائے کہ ہر سال قائد اعظم کے زیر استعمال کرسی پر اس کی ایک تصویر کھینچ کر جاری کی جائے ۔ اسی طرح نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو یوم آئین پاکستان منانے کا اہتمام بھی کرنا چاہئے۔ بلاشبہ مرحوم مجید نظامی نے تحریک پاکستان کے بزرگ کارکنوں کو معاشرے میں ایک باوقار مقام دینے میں بڑے کمال کا کام کیا ہے، اب اس سلسلے کو آگے بھی بڑھنا چاہئے۔
تقریب کا جاہ وجلال دیدنی تھا۔ تحریک پاکستان کے کارکن ، قائد اعظم کے ساتھی، گلے میں پھولوں کے ہار پہنے ٹرسٹ کے زیر اہتما م چلنے والے نظریاتی سکولوں کے بچوں اور دیگر حاضرین کے سامنے جلوہ فگن تھے۔ قوم کا شاندار ماضی قوم کے سامنے تھا، ہمیں اس ماضی کو محفوظ بنانا ہے ۔ ماضی کی یہ نشانیاں پہلے ہی کانوں میں سننے کے آلے، آنکھوں پر موٹے موٹے شیشوں والی عینکیں اور ہاتھوں میں لاٹھیاں تھامے بے جان جسموں کے ساتھ ہمارے قدم سے قدم ملا کر چلنے کی سعی کر رہی ہیں۔ نظریاتی سکول کے بچوں نے قومی نغمے سنائے تو ماحول مسکرانے لگا جس کو شاہد رشید کی کمپیئرنگ نے چار چاند لگادیئے۔ اسی طرح مرغوب ہمدانی کلام اقبال سنا کر تحریک پاکستان کے کارکنوں کو ان کی جدوجہد کے زمانے میں لے گئے، آخر میں صاحبزادہ سلطان احمد کی دعا میں وہی اثر تھا جو حضرت سلطان باہو کے کلام میں موجزن ہوتا ہے۔