آئین پر متحد ہونے کی ضرورت
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ قومی معاملات کو جوش کی بجائے دانشمندی سے حل کرنا ہو گا اور اِس سلسلے میں سب کو متحد ہونا چاہئے، ہماری قوم کا مزاج جمہوری اور پارلیمانی ہے، جلد بازی میں کسی نئی منزل کا مسافر بننے کی بجائے اپنے تجربے سے استفادہ کیا جائے، قانون کے احترام اور اصول پسندی سے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے، نوجوان دانش مندی کا مظاہرہ کر کے قومی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنیں،وطنِ عزیز کو درپیش چیلنجوں پر غیر جذباتی انداز میں توجہ دینے کی ضرورت ہے، اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کے دست و بازو بن جائیں،کشیدگی کے ماحول میں جوش پر ہوش غالب نہ آیا تو اقتصادی ترقی کا خواب پورا نہ ہو سکے گا۔قائداعظمؒ اور علامہ اقبال ؒ نے مسلمانوں کو اعتدال پر چلنے کی ترغیب دی۔صدرِ مملکت نے قومی قیادت سے کہا ہے کہ وہ اختلافات ختم کر کے قومی مفاد میں پاکستان کے آئین پر متحد ہو جائیں،آئین کا تحفظ اور اس کی مکمل پاسداری مُلک کے امن، ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے، قوموں کے دفاع اور اقتصادی ترقی و خوشالی کا راز قومی اتحاد و اتفاق میں پوشیدہ ہے، وہ یوم آزادی کے موقع پر کنونشن سنٹر اسلام آباد میں پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
آئینِ پاکستان میں تبدیلیوں کی باز گشت گزشتہ کچھ عرصے سے سنائی دے رہی ہے،آئین کوئی ساکت و جامد شے نہیں،بدلتے حالات کی ضروریات کے مطابق اس میں ترمیم و اضافہ ہو سکتا ہے تاہم ایسا کسی کی ذاتی خواہشات یا کسی گروہ یا پارٹی کی خوشنودی کے لئے نہیں،مُلک کی ضروریات اور بہتری کے لئے ہی ہو سکتا ہے،انسانوں کی خواہشات اور تمنائیں بدلتی رہتی ہیں ایک وقت میں وہ اگر کسی آئینی دفعہ سے خوش ہوتے ہیں دوسرے وقت میں اگر اُنہیں کوئی رنج پہنچتا ہے تو اِس کے خلاف ہو جاتے ہیں آئین میں جو تبدیلی کسی حکمران یا پارٹی کے مفاد کو پیشِ نظر رکھ کر کی جائے گی اس سے ممکن ہے اس حکمران یا پارٹی کو وقتی فائدہ ہو جائے،لیکن اگر ایسی کوئی تبدیلی ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں نہ ہو یا طویل عرصے کے لئے فائدہ مند نہ ہو تو اس تبدیلی سے گریز کرنا چاہئے،آئین میں ترمیم کا طریقِ کار وضاحت کے ساتھ درج ہے اس کے تحت اگر کوئی ترمیم پارلیمینٹ دو تہائی اکثریت سے کسی جبرو اکراہ کے بغیر کرتی ہے تو وہ نہ صرف قوم کے لئے قابلِ قبول ہونی چاہئے، بلکہ توقع یہی کرنی چاہئے کہ ایسی تبدیلی سے مُلک کے حالات میں بھی بہتری آئے گی۔
پارلیمینٹ آئین کی پیداوار ہے،آئین کے نتیجے میں پارلیمینٹ تخلیق ہوئی،پارلیمینٹ کو جو اختیار آئین دیتا ہے اگر وہ اِس سے تجاوز کرتی ہے یا اس کی روح کو مجروح کرتی ہے تو وہ اپنی تخلیق کے مقاصد کو زک پہنچاتی ہے،پارلیمینٹ اگر آئین میں کسی ردوبدل کو ضروری سمجھتی ہے،کسی شق کو آئین سے نکالنا چاہتی ہے یا کسی نئی شق کا اضافہ کرنا چاہتی ہے تو وہ آئینی حدود میں رہ کر ایسا کر سکتی ہے تاہم پارلیمینٹ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ آئین کی کسی بنیاد کو ڈھا دے یا تبدیل کر دے، مثال کے طور پر ہمارا موجودہ آئین وفاقی پارلیمانی ہے،پارلیمینٹ اسی نظام کو قائم رکھنے کی پابند ہے وہ اِس نظام کو تبدیل کرکے صدارتی رنگ نہیں دے سکتی،نہ ہی اسے کسی دوسرے نظام میں بدل سکتی ہے،اِس لئے جو حلقے صدارتی نظام کی بات کر رہے ہیں اُن کو خبردار رہنا چاہئے کہ پارلیمینٹ کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے،غالباً یہی وجہ ہے کہ جب صدارتی نظام کے حامی اس کی بات کرتے ہیں تو ساتھ ہی ماورائے آئین اقدام کی بات بھی کرتے ہیں اور دوسرے ہی سانس میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ مُلک مقدم ہے آئین نہیں ہے، حالانکہ آئین اور مُلک ایک دوسرے کے حریف نہیں ہیں، بلکہ یک جان دو قالب ہیں۔ایک دوسرے کی مضبوطی کا باعث بنتا ہے،آئین پر عمل کیا جاتا ہے تو مُلک کو چلانے والے ادارے بھی مضبوط ہوتے ہیں،لیکن جن لوگوں کے مخصوص سیاسی مفادات کی راہ میں آئین حائل ہوتا ہے اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اسے راستے سے ہٹا دیں وہ اپنی اِس خواہش کو ملکی مفاد کا نام دیتے ہیں،حالانکہ ضروری نہیں کہ کسی حکمران یا سابق حکمران کا ذاتی مفاد ہمیشہ مُلک کے مفاد سے مطابقت رکھتا ہو، لیکن اگر ملکی مفاد کو دوسری ہر چیز پر مقدم رکھا جائے تو آئین درست سمت میں رہنمائی کرتا ہے، کوئی رکاوٹ نہیں بنتا۔
اِس وقت مُلک کے اندر صدارتی نظام کے حق میں رائے ہموار کرنے کے لئے بعض لوگوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں،جو معروضی حالات کو نظر انداز کر کے صدارتی نظام کی خوبیاں اور برکات شمار کرتے چلے جا رہے ہیں، لیکن اِس بات سے بے خبر ہیں کہ موجودہ آئین کی موجودگی میں ایسا نہیں ہو سکتا، غالباً اِسی لئے انہوں نے یہ فلسفہ تراشا ہے کہ مُلک مقدم ہے،آئین ثانوی ہے،چونکہ ان حلقوں کو معلوم ہے کہ صدارتی نظام لانے کے لئے نئی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کرانا ہوں گے،جو اول تو ممکن نہیں اور اگر کسی کرشمے کے نتیجے میں ایسا ہو بھی جائے تو جو سیاسی جماعتیں اسمبلی میں تین چار سے زائد نشستیں حاصل نہیں کر سکتیں وہ اپنی مرضی کا نیا آئین کیسے بنا سکتی ہیں اِس لئے وہ ماضی کی مثالوں سے ماورائے آئین اقدامات پر تان توڑتے ہیں،جس طرح ایوب خان نے مارشل لاء لگا کر اپنا صدارتی نظام نافذ کر دیا تھا یا جس طرح بعد کے ایام میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل(ر) پرویز مشرف نے پارلیمانی نظام میں اس حد تک تبدیلیاں کر دیں کہ یہ صدارتی کے قریب تر ہو گیا اس نظام میں وزیراعظم کی حیثیت صدر کے ایک کٹھ پتلی کی ہو کر رہ گئی تھی،جسے جب چاہا راستے سے ہٹا دیا گیا۔یہی وجہ تھی کہ عشروں تک کوئی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکا۔
صدرِ مملکت ممنون حسین نے قوم کو آئین پر اتحاد کی جو تلقین کی ہے وہ بہت بروقت ہے، سیاسی جماعتیں کسی بھی ترمیم کے بارے میں اپنی رائے رکھنے میں آزاد ہیں۔اگر انہیں کوئی آئینی ترمیم پسند نہیں تو وہ کھل کر مخالفت بھی کر سکتی ہیں،اُنہیں کسی نے نہیں روکا،لیکن اپنی رائے پر سختی سے قائم رہتے ہوئے وہ ایسے اتحاد کا مظاہرہ تو کر سکتی ہیں کہ کسی معاملے میں اختلاف رائے انتشار اور بے چینی کا باعث نہ بنے،اس وقت نئے سوشل کنٹریکٹ اور آئین میں ترمیم کی جو بحث چل نکلی ہے اسے بھی حدود و قیود کے اندر رہ کر آگے بڑھنا چاہئے،پارلیمینٹ بالادست ادارہ ہے اس کے فیصلے ہر سیاسی جماعت کے لئے قابلِ قبول اور حرفِ آخر ہونے چاہئیں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی مفادات کو ضرور سامنے رکھیں،لیکن ایسا کرتے وقت قومی مفاد کو پسِ پشت نہ ڈالیں۔