تیری آواز مکے مدینے!
اللہ کا شکر ہے کہ تصنع اور تکلف سے اس نے ہمیشہ محفوظ رکھا۔ اپنے طرز زندگی سے لے کر تمام معمولات و خیالات اور اطوار و عادات میں کبھی ملمع سازی پر طبیعت آمادہ نہیں ہوئی۔ بخدا یہ میرا اپنا ذاتی کوئی کمال نہیں، والدین کی طبیعت ، اساتذہ کی تعلیم اور سید مودودیؒ کے لٹریچر اور ان سے ذاتی تعلقات کا اس میں نمایاں کردار ہے۔ میں اس بات پر ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ فقیرانہ طرز زندگی میں اس ذات بابرکات نے اس بندۂ عاصی کو یک گونہ طمانیت اور سکون عطا فرمایا ہے۔ زبان سے کبھی کسی کی خوشامد اور قلم سے کسی کاناروا دفاع اپنے ضمیر و شعورکی روشنی میں کبھی نہیں کیا۔ یہ ممکن ہے کہ کسی کو سمجھنے میں کوئی غلطی ہوگئی ہو، مگر یہ بات پوری ذمہ داری کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ ذاتی مفاد یا دنیاوی اغراض کے لئے خوشامد کو زہرِ قاتل اور ایمان کے منافی سمجھتا ہوں۔
کافی عرصے سے مصروفیات کا یہ عالم ہے کہ انگریزی اور اردو کے درجن بھر اخبارات پر محض طائرانہ نظر ڈال کر اپنے کام میں لگ جاتا ہوں۔ آج 15اگست کے کم و بیش تمام قومی اخبارات میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی یوم پاکستان کے حوالے سے لاہور کے تاریخی شاہی قلعہ میں کی گئی تقریر کی سرخیاں دیکھیں تو دل چاہا کہ متن بھی پڑھ لوں۔ پوری خبر پڑھی ،سوچا خواب تو نہیں دیکھ رہا، مگر ظاہر ہے کہ یہ خواب نہیں تھا۔ میاں صاحب نے جو تجزیہ کیا ہے، اگر سیاق و سباق سے ان کا نام ہٹا کر اخبارات کے یہ تراشے کسی بھی سمجھدار اور غیر جانبدار پاکستانی کو دیئے جائیں ،پھر پوچھا جائے کہ یہ کس کا خطاب ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس کا جواب ہوگا کہ یہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کا یا جماعت اسلامی کے کسی اہم ذمہ دار کا بیان ہے۔ میاں صاحب نے تاریخ پاکستان کا اتنا اچھا تجزیہ کیا ہے کہ اس کی تحسین کرنے کو جی چاہتا ہے۔
پہلے بھی عرض کیا تھا کہ تکلف و تصنع کا قائل نہیں ہوں۔ اپنی ہر مجلس میں بھی تحریکی ذمہ داران کے سامنے یہ عرض کرتا ہوں کہ کسی کے ساتھ مخالفت ہو یا محبت، جو کوئی اچھی بات کہے، اس کی تحسین اور جو غلط بات کہے ، اس کی تردید اخلاصِ نیت کے ساتھ ایمان کا تقاضا ہے۔ میاں برادران سے نہ کوئی ذاتی مفاد وابستہ ہے، نہ کوئی ذاتی دشمنی۔ یہ بھی واضح رہے کہ ماضی میں انہوں نے قاضی حسین احمد مرحوم کے دور امارت میں جماعت اسلامی کو جو نشانۂ انتقام بنایا وہ رفت و گزشت ہوچکا اور ان کے بیرون ملک سے واپس آنے پر اس پر باہمی تبادلۂ خیالات میں طے بھی پاگیا کہ اسے کسی کشیدگی کا باعث نہیں بننا چاہیے۔
سو اس پر ہم قائم ہیں، تاہم جماعت اسلامی نے کبھی کسی کے ساتھ یہ معاہدہ نہیں کیا کہ ہم غلط کاموں پربھی آنکھیں بند کرلیں گے اور ہونٹ سی لیں گے۔ ہم کرپشن کے خلاف عدالتی چارۂ جوئی کے لئے نکلے تو بھی کسی کی ذات سے پرخاش نہیں تھی۔ ہمارا اب بھی یہی مطالبہ ہے کہ ’’فرمان رب کا ، احتساب سب کا‘‘اور ہم اس پر قائم ہیں۔ بات قدرے لمبی ہوگئی، اسے یہیں ختم کرتے ہوئے میاں شہباز شریف کی مبینہ تقریر کی رپورٹنگ من و عن ایک بار پھر پڑھ لیتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا: ’’آج پوری قوم 70 واں یوم آزادی جوش و خروش سے منا رہی ہے اور ہمیں قومی دن کے موقع پر سیاست سے بالاتر ہو کر اتحاد، یگانگت، محبت اور باہمی احترام کے جذبات کو فروغ دینے کی بات کرنی ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا ہے کہ پاکستان ایٹمی قوت اور ملک پر میلی آنکھ سے دیکھنے والے دشمن کو کچل دینے کی طاقت رکھنے کے باوجود سیاسی اور معاشی طور پر محکوم کیوں ہے؟ یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے، اگر ہم نے یہ موقع بھی ضائع کر دیا اور تقاریر اور اشعار کا سہارا لے کر گہری نیند سوتے رہے تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ہم آج بھی من حیث القوم پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا فیصلہ کرلیں اور شبانہ روز دیوانہ وار محنت کریں تو خدا کی قسم پاکستان چند سال میں بھارت تو کیا اس کے باپ کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا، مگر یہ صرف نعروں، تقریروں اور باتوں سے نہیں، بلکہ محنت، امانت، دیانت، ایثار و قربانی اور شفاف احتساب پر عمل پیرا ہونے سے ہی ہوگا۔ شہباز شریف نے ان خیالات کا اظہار شاہی قلعہ لاہور میں پاکستان کے 70ویں یوم آزادی کے موقع پر پرچم کشائی کی تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کیا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ آج کا دن اس بات کا بھی متقاضی ہے کہ اسے احتسابی عمل کا حصہ بنایا جائے۔ 70 سال کی بیلنس شیٹ کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے؟ دشمن وطن عزیز کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ ملک کے ایٹمی قوت بننے کا سہرا پوری قوم کے سر ہے۔ ہمیں آج اس بات کا بھی جائزہ لینا ہے کہ جرمنی کے شہر برلن میں ہونے والی جی 20 کی میٹنگ میں بھارت کے وزیراعظم مودی اور دیگر رہنما تو نظر آئے، لیکن پاکستان یہاں کیوں موجود نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات، قائدؒ اور اقبالؒ کے افکار و فرمودات پر عمل نہیں کیا۔
ہمیں آج قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کو کی گئی اس تقریر کو بھی یاد رکھنا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ رشوت اور کرپشن زہر قاتل ہے۔ 70 سال گزرنے کے باوجود بھی اگر کوئی ماں یا بیٹی دوائی اور علاج نہ ملنے کے باعث مر جائے، قوم کے ذہین بچے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے زیور تعلیم سے محروم رہیں، ایک طرف دولت کے ڈھیر ہوں اور دوسری طرف غربت اور ظلم و زیادتی ہو تو اس کی وجہ کرپشن ہے۔ اس ملک کی اشرافیہ کی چوکھٹ پر زندگی کی ہر نعمت سلام کرے، لیکن پنجاب کے میدانوں، بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں، مہران کی وادیوں اور خیبر پختونخوا کے برف پوش پہاڑوں میں بسنے والوں کی بڑی تعداد بنیادی سہولتوں سے محروم ہو اور یہاں کی بیٹیوں کو یہ خوف لاحق رہے کہ کوئی درندہ ان کی عزت لوٹ لے گا تو اس کی وجہ بھی کرپشن ہے۔ ملک کو کنگال اور بدحال کرنے کی ذمہ دار اس ملک کی اشرافیہ ہے۔
یہاں سیاسی بنیادوں پر اربوں کھربوں کے قرضے معاف کرانے والے موجود ہیں۔ یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی کرپشن کے سکینڈلوں کے چرچے ہیں۔ قومی دولت کو لوٹنے والوں نے پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ قومی وسائل لوٹنے والوں کے یورپ، کینیڈا اور دبئی میں محلات ہیں، جبکہ پاکستان میں غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ اگر ملک کو ہچکولے ملے ہیں تو اس کی وجہ کرپشن اور اشرافیہ کی لوٹ مار ہے اور آج اشرافیہ مجھ سمیت کٹہرے میں کھڑی ہے اور آج ہمیں جواب دینا ہے، کیونکہ اشرافیہ اپنی تقدیر تو بدلتی رہی، لیکن اس قوم کی تقدیر کو خراب کرتی رہی۔ مساوی حقوق سب کو ملنا ہی پاکستان کی بنیاد تھی لیکن افسوس یہ نہ ہوسکا ‘‘۔۔۔ویل ڈن میاں شہباز شریف ویلڈن۔ تیری آواز مکے مدینے۔ آپ نے ہمارا پیغام قوم تک پہنچایا ہے۔
شکریہ مگر درخواست ہے کہ اس بیانیے کے مطابق حالات کو بدلنے اور قانون و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کا اعلان اور عہد کیجیے اور برادرِ اکبر کو ناصحانہ مشورہ بھی دیجیے۔ میاں شہباز شریف شاہی قلعہ میں تقریر فرما رہے تھے، جبکہ ان کے برادرِ اکبر میاں نواز شریف چند قدم کے فاصلے پر حضوری باغ میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ ان کا خطاب بالکل مختلف نوعیت کا تھا۔ اگر میاں شہباز شریف نے حقائق کو تسلیم کیا ہے تو بڑے میاں صاحب کا دل اتنا بڑا کیوں نہیں کہ وہ بھی ان تلخ حقائق کا ادراک و اعتراف کرلیں۔ بلاشبہ اشرافیہ کی حرکات نے ملک و قوم کو تو لوٹا ہے، مگر آج حقیقی عدل و انصاف کا نظام قائم ہوجائے تو اس اشرافیہ کا انجام ایسا عبرتناک ہو کہ پوری دنیا کے لئے مثال بن جائے۔ معاشرے کے بالائی طبقات کو اشرافیہ کہا جاتا ہے۔
میں بھی متداول و مروج اصطلاح کے طور پر یہی لفظ استعمال کرتا ہوں، مگر سچی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے لئے یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے مجھے کافی ذہنی کوفت ہوتی ہے، آپ کہیں گے کیوں؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے ’’شرف ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی عزت ہیں۔ وہ دیانت دار، مزدور جو پوری ایمانداری کے ساتھ خون پسینہ ایک کرکے حلال کمائی سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے، وہ شریف کیوں نہیں؟ اصل میں تو اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی نظروں میں شرف کا مستحق وہی ہے، خواہ جھونپڑے میں رہتا ہو یا کسی ٹینٹ میں۔ جو لوٹ مار ، اختیارات کے غلط استعمال اور کرپشن کے ذریعے دولت سمیٹتا ہے،حدیث کے مطابق وہ طبقہ اشرافیہ نہیں ’’اشراریہ‘‘ ہے۔