سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں جشن آزادی کی پُرجوش تقاریب
ملک بھر کی طرح سندھ کے شہروں تحصیلوں اور قصبوں کی سطح پر گلی کوچوں و بازاروں میں ستر واں(70) یوم آزادی روایتی جوش و خروش کے ساتھ قومی ترانے اور ملی نغموں کی گونج میں منایا گیا۔ عوامی سطح پر جشن آزادی کی تقریبات میں سید ضمیر جعفری (مرحوم) کے قومی نغمہ ’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں‘‘ کی گونج چھائی رہی کراچی میں بھی 14 اگست کی صبح کا آغاز توپوں کی سلامی سے ہوا مساجد میں ملک کی سلامتی، ترقی و فلاح کی دعائیں مانگی گئیں سرکاری طور پر مزار قائداعظمؒ پر گورنر سندھ محمد زبیر عمر، وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ، سندھ کابینہ کے ارکان، منتخب ارکان اسمبلی سمیت بلدیاتی اداروں کے نمائندوں، اعلیٰ سول و فوجی حکام اور دیگر سیاسی و سماجی شخصیات نے حاضری دی، فاتحہ خوانی کی اور پھولوں کی چادریں چڑھائیں: مزار قائد پر دن بھر شہریوں کا اژدھام رہا، عام شہریوں کی بہت بڑی تعداد نے بانی پاکستان کے مزار پر فاتحہ خوانی کے ساتھ ساتھ مزار قائد کے احاطے میں مدفون تحریک پاکستان کی جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کرنے والے قائد کے معتمد ساتھیوں کی قبروں پر بھی فاتحہ خوانی کی۔ اس احاطے میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم (شہید ملت) خان لیاقت علی خان، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، سردار عبدالرب نشتر اور مشرقی پاکستان کے سابق وزیراعلیٰ نورالامین مدفون ہیں، نورالامین ان رہنماؤں میں سے ایک تھے جنہوں نے بنگلہ دیش بننے کے بعد بنگال جانے سے انکار کر دیا تھا سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹر یٹر اور صدر پاکستان کے طور پر اقتدار منتقل کیا گیا تو نورالامین کو ذوالفقار علی بھٹو نے نائب صدر کے منصب پر فائز کیا تھا۔ قبل ازیں جنرل یحییٰ خاں نے سقوط ڈھاکہ کے سانحہ سے قبل نورالامین کو پاکستان کا وزیراعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے ساتھ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نامزد کیا تھا ذوالفقار علی بھٹو اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے گئے تھے۔ 1972ء میں نورالامین کا نائب صدر کے منصب پر فائز رہتے ہوئے انتقال ہوا، تو ان کی میت اسلام آباد سے کراچی لائی گئی اور سرکاری اعزاز کے ساتھ مزار قائد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔
قبل ازیں12اگست کو وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی مزار قائد پر حاضری دینے کے لئے مختصر دورہ پر کراچی آئے تھے وزیراعظم نے اپنے مختصر قیام کراچی کے دوران مزار پر حاضری کے علاوہ گورنر ہاؤس میں امن و امان کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی جس میں گورنر سندھ جناب محمد زبیر عمر وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ، کور کمانڈر فائیو کور، سندھ رینجرز کے ڈی جی، آئی جی سندھ و دیگر اعلیٰ سول اور فوجی حکام نے شرکت کی تھی۔ وزیراعظم کراچی آئے۔ تو ان کے ہمراہ وزیر داخلہ جناب احسن اقبال بھی تھے۔ ایئر پورٹ پر وزیراعظم کا استقبال گورنر سندھ اور اعلیٰ عسکری و سول حکام نے کیا۔ وزیراعظم سے گورنر ہاؤس میں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے وفد کے ساتھ ملاقات کی اور ایم کیو ایم کو درپیش مشکلات کو دور کرنے میں وزیراعظم سے تعاون کی درخواست کی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے قانون کے مطابق تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعظم نے تاجروں کے ایک بڑے وفد سے بھی ملاقات کی۔گورنر ہاؤس میں ہونے والے اجلاس کے بعد وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امن کی بحالی کے لئے رینجرز اپنا کام جاری رکھے گی۔ کراچی میں چار سال کی محنت کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔ امن کی بحالی سے کراچی کی روشنیاں بحال ہو رہی ہیں۔ شہر میں مکمل امن کی بحالی ا ور استحکام کے لئے تمام وسائل استعمال کریں گے۔ سیاسی جماعتوں کو ملک کے ’’معاشی حب‘‘ اور سب سے بڑے تجارتی شہر کی بہتری کے لئے متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔ وفاقی حکومت سندھ کی ترقی کے لئے مزید تعاون جاری رکھے گی۔ وزیر اعظم نے اس موقع پر مزید 30 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈ دینے کا اعلان کیا ہے جس میں 25 ارب روپے کراچی اور 5 ارب روپے حیدر آباد کے لئے ہوں گے۔واضح رہے کراچی میں وفاقی حکومت کے فنڈ سے گرین بس سروس کے منصوبہ پر تیزی سے کام جاری ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت پانی کی فراہمی کے منصوبہ کے لئے سندھ حکومت کو 13 ارب روپے کا فنڈ دے رہی ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سندھ کے گورنر زبیر عمر کوئی سیاسی کردار ادا نہیں کر رہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے قیام کراچی کے دوران اپنے جیل کے ساتھی اور سابق سیاسی رفیق سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ اور سندھ مسلم لیگ (ن) کے سابق صدر سید غوث علی شاہ سے بھی ملاقات کی۔سید غوث علی شاہ مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف کو بائی بائی کہہ چکے ہیں۔ اس لئے اس ملاقات سے یہ تاثر قائم کرنا درست نہ ہوگا کہ یہ ملاقات ان کو دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں فعال اور متحرک کردار ادا کرنے کے ضمن میں تھی۔ سید غوث علی شاہ اپنی پیرانہ سالی اور صحت کے مسائل کے باعث اب فعال سیاسی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں شائد نہ ہوں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے 1999ء میں میاں نوازشریف کی دو تہائی اکثریت رکھنے والی منتخب حکومت پر شب خون مار کر منتخب وزیراعظم کو ہائی جیکنگ کے کیس میں گرفتار کیا۔تو موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سید غوث علی شاہ کو بھی شریک ملزم کے طور پر گرفتار کر کے قید کیا گیا تھا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی میاں نوازشریف کے ساتھ دو سال جیل میں ساتھ رہے تھے۔یہ ملاقات اسی تعلق کے حوالہ سے تھی۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیراعظم نے سندھ کی ترقی میں مزید تعاون اور ملک کے سب سے بڑے تجارتی شہر کے مسائل کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ وزیر اعظم کی نظر سے کراچی کے مسائل و مشکلات اوجھل ہیں اور نہ ہی کراچی کے باسیوں کی محرومیوں سے ناواقف ہیں۔
کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ بدامنی لاء قانونیت کا خاتمہ اور مسلح اسلحہ برداری کے ساتھ مسلک اور فرقہ واریت کی بنیاد پر انتہا پسندوں کے سیاسی اور غیر سیاسی گروپوں کے قلع قمع اور شہری اور دیہی علاقوں کے باسیوں کو ان کے جائز سیاسی اور معاشی حقوق کو یقینی بنانے کی ضمانت فراہم کرنا ہے۔جس سے سندھ کے باسی منتخب حکومتوں کے دور میں بھی محروم ہیں اور فوجی حکمرانوں کے دور میں بھی محروم رہے ہیں۔ وزیراعظم اگر سندھ کے اصل حکمران جناب آصف علی زرداری سے مکالمہ کے ذریعہ سندھ کے شہری علاقوں میں آباد باسیوں کے جائز حقوق کی فراہمی کا کوئی قابل عمل فارمولا طے کرا دیں تو ان کی حکومت کو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا اس کے لئے مکالمہ کے ساتھ ساتھ ملک گیر سیاسی جماعتوں کا سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں سیاسی عمل کے ذریعے مضبوط نیٹ ورک قائم کرنا ضروری ہے جس سے وزیراعظم کی جماعت نے صرف نظر کر رکھا ہے پاکستان کے سیاسی حکمرانوں کا ایک بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ ان کے قائدین نے 1958ء کے پہلے مارشل لاء کے بعد سے دنیا کے مہذب مسلمہ جمہوری ملکوں کی طرح اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں سیاسی کلچر کو فروغ دینے کی طرف کوئی توجہ دی اور نہ ہی اختلاف رائے کو دشمنیوں میں تبدیل نہ ہونے کی سیاسی روایات کو معاشرہ میں پروان چڑھانے کے لئے کوئی کوشش کی جس کی وجہ سے ہر مہم جو نے مخالف سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لئے حکومت مخالف سیاست دانوں کو مہرہ کے طور پر استعمال کیا۔ اللہ جانے ہمیں کب ہوش آئے گا۔ اور ہم بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت جیو اور جینے دینے کے اصولوں کی پاسداری کر کے پڑوسی ملک بھارت کی طرح خوشی و غمی کے تہوار اکٹھے منانے کا سلیقہ اپنانے کی ضرورت کا احساس کر پائیں گے۔