واہگہ پر بلندترقومی پرچم لہرایا گیا،جنرل قمر باجوہ کی ولولہ انگیز تقریر
قوم نے اس سال یوم آزادی کچھ زیادہ ہی جوش و خروش سے منایا، کوئٹہ میں دہشت گردی کے دکھ بھرے افسوسناک حادثے کے باوجود قومی عزم میں نقاہت نہ آئی اور ہماری سیکیورٹی کے ضامن اداروں نے بھی بھرپور حصہ لیا، اس سلسلے کی ایک بڑی تقریب لاہور میں واہگہ کی بین الاقوامی سرحد پر ایک روز قبل ہوئی، جب بری افواج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلند تر پرچم لہرانے کی تقریب میں شرکت کی اور ایک ولولہ انگیز خطاب کیا۔ یہ پرچم خصوصی طور پر تیار کیا گیا جو حد نگاہ تک نظر آتا رہے گا اس موقع پر شہریوں کی بھاری تعداد موجود تھی، سب نے مل کر اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے جنرل قمر جاوید باجوہ نے دشمن اور دہشت گردوں کو خبردار کیا کہ وہ پاکستانیوں کے عزم سے نہ ٹکرائیں، ان کی گولیاں ختم ہو سکتی ہیں، ہمارے سینے نہیں۔ ہم ایک ایک دہشت گرد کو اس کے بل میں سے نکال کر ماریں گے، ان کا کہنا تھا کہ اب ہم نے ماضی میں ہونے والی غلطیوں سے سیکھا ہے اور ملک اب آئین اور قانون کی راہ پر چل پڑا ہے۔ انشاء اللہ یہ پرامن ہوگا۔
یوم آزادی سے ایک روز قبل ہی سابق وزیراعظم محمد نوازشریف جی ٹی روڈ کے راستے سفر کرتے ہوئے اپنے گھر پہنچ گئے۔ ان کا یہ سفر چار روز میں مکمل ہوا کہ جگہ جگہ پرجوش اور زبردست استقبال کیا گیا۔ انہوں نے راستے میں تقاریر بھی کیں اور آخری تقریر مزار داتا گنج بخشؒ کے باہر جلسہ میں کی۔سابق وزیراعظم نے ایوان وزیراعظم خالی کرنے کے بعد سے کئی سوالات اٹھائے ہیں، ان کی طرف سے عدلیہ کے فیصلے پر بھی زبردست تنقید کی ، انہوں نے عندیہ دیا کہ ووٹ کے تقدس کو بحال کرنے کے لئے نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے اور ان کی جماعت آئین میں مطلوبہ ترامیم کے لئے کام کرے گی۔ سابق وزیراعظم نے سازش کا ذکر کیا لیکن کسی کا نام نہیں لیا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اب نظریاتی ہو گئے ہیں اور ملک میں نظام کی تبدیلی کے لئے انقلاب پر کام کریں گے نہ خود آرام سے بیٹھیں گے نہ عوام کو بیٹھنے دیں گے، انہوں نے اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرنے کے لئے کہا تاہم بعدازاں یہ طے کیا کہ وہ مشاورت کے بعد آئندہ کے لئے پروگرام دیں گے، سابق وزیراعظم یوم پاکستان پر علامہ اقبال کے مزار پر بھی گئے فاتحہ خوانی کی، اس موقع پر انہوں نے میڈیا سے گفتگو کی تاہم سوالات کے جواب سے گریز کیا۔
اسی روز لاہور کے حضوری باغ کے سامنے قلعہ لاہور کے عالمگیری گیٹ پر قوم پرچم لہرایا گیا، وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف خود موجود تھے اور مہمان خصوصی بلوچستان کے وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری تھے جو اس تقریب کے بعد کوئٹہ گئے اور وہاں تقریب انعامات میں شرکت کی۔ یہ معمول کے مطابق پروقار تقریب تھی۔ وزیراعلیٰ نے ایک بار پھر ظلم اور زیادتی کے خلاف سرگرم عمل رہنے کا عزم ظاہر کیا اور کہا کہ اشرافیہ نے عوام کے حقوق غصب کئے یہ سلسلہ اب زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔
لاہور میں ایک نئی جماعت کی طرف سے نئی تقریب کا بھی انعقاد ہوا، ملی مسلم لیگ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل پائی یہ جماعت جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا مجموعہ ہے اور باقاعدہ طور پر سیاسی عمل شروع کیا گیا۔ خالد سیف اللہ صدر نامزد ہوئے جبکہ فوری طور پرمختلف اضلاع میں بھی تنظیموں کا قیام عمل میں آ گیا۔ لاہور میں ایک مجلس فکر کا اہتمام کیا گیا جو جلسہ کی صورت اختیار کر گئی صدر خالد سیف اللہ نے جماعت کا مقصد بیان کیا۔ جو معاشرے میں اتحاد و اتفاق، ملک کی حفاظت و ترقی اور عوامی بہبود کے لئے کام کرنا ہے۔
ڈاکٹر علامہ طاہر القادری لاہور میں ہیں۔ اور اپنی جماعت کی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ ماڈل ٹاؤن سانحہ کے مقتولین کا قصاص دیا جائے اور وہ قصاص سے کم راضی نہیں ہوں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے اعلان کے مطابق آج (بدھ 16اگست) سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کے اہل خانہ شاہراہ قائداعظم پر دھرنا دیں گے۔ جو خواتین پر مشتمل ہوگا۔ یوں لاہور سرگرم ہے۔