میں برہنہ حالت میں قالین پر پڑا تھا۔ مجھ پر لاتوں کی بارش شروع ہوگئی۔ بے اختیار میں نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔ مارنے والے کئی تھے۔ ساجد ان میں پیش پیش تھا۔ لاتوں اور گھونسوں کی ضربوں نے مجھے بے حال کر دیا۔
’’اسے پولیس کے حوالے کر دیں۔‘‘ ایک آواز میرے کانوں میں پڑی۔
’’پیچھے ہٹ جاؤ۔۔۔بس کرو۔۔۔کہیں بدبخت مر ہی نہ جائے‘‘ یہ آواز ڈی ایس پی عمر حیات کی تھی۔
’’ایسے بے حیا انسان کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں انکل!‘‘ ساجد نے نفرت سے کہا اور ایک زور دار ٹھوکر میری کنپٹی پر رسید کی۔ اس کے ساتھ ہی میں ہوش کی دنیا سے دور چلا گیا۔ سر پر لگی ضرب نے مجھے بے ہوش کر دیا تھا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں سلاخوں والے دروازے کے پاس ننگے فرش پر پڑا تھا۔ سامنے ایک سنگین بردار سپاہی کی موجودگی یہ ظاہر کر رہی تھی کہ میں تھانے کی حوالات میں ہوں۔ شعورمیں آتے ہی میں نے اپنے جسم کی طرف دیکھا۔ ایک دھوتی بندھی تھی اوپری جسم ننگا تھا۔ مجھے چکر آرہے تھے۔ دائیں آنکھ سوج کر کپا ہو چکی تھی جس میں سوزش کے ساتھ درد ہو رہا تھا۔ میں نے واحد آنکھ سے دیکھا کمرے میں میرے علاوہ کوئی نہ تھا۔ سب کچھ ایک بھیانک خواب کی طرح لگ رہا تھا۔ میں سبین کو روندنے میں مصروف تھا کہ کالی داس کچھ لوگوں کے ساتھ اندر آگیا۔ حالانکہ بیڈ روم کا دروازہ اندر سے لاک تھا لیکن اس کے لئے اسے کھولنا کیا مشکل تھا؟ وہ موقع کی تلاش میں تھا اور آج اسے میں نے وہ موقع فراہم کر دیا تھا۔ اسنے مجھ سے اچھا بدلہ لیا تھا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر59 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’کاش بے ہوشی ہی میں میں اس دنیا سے جہنم کی طرف چلا جاتا۔ کاش لوگوں نے مجھے موقع پر ہی مار دیا ہوتا‘‘ میں نے چکراتے ذہن کے ساتھ سوچا۔ آنکھوں کے سامنے وہ بھیانک منظر دوبارہ ابھر آیا۔ آس پاس رہنے والے لوگوں کی آنکھوں میں شدید حیرت تھی۔ اورکیوں نہ ہوتی وہ کبھی مرکر بھی یقین نہ کر سکتے تھے کہ میرے جیسا انسان اس طرح کی قبیح حرکت کر سکتا ہے۔ میری شہرت اپنے علاقے میں بہت اچھی تھی۔ اس پرصائمہ گھر میں آنے والی خواتین کو نماز پڑھنے کی تلقین کرتی۔ ان کے ساتھ نہایت اخلاق سے پیش آتی، اس کے علاوہ بچیوں کو وہ قرآن پاک بھی پڑھاتی تھی۔ صائمہ نے خود کبھی اس معاملے پرمیرے ساتھ تفصیل سے بات نہ کی تھی میں کچھ پوچھتا بھی تو کہتی۔
’’فاروق! ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملنے جلنے والوں کو دین کی تبلیغ کرے۔ میں اس کام کی تشہیر اس لئے نہیں کرتی کہ کہیں ریا کاری نہ ہو جائے‘‘ کس قدر عظیم اور نیک تھی میری بیوی اورمیں۔۔۔؟
مجھے اپنے وجود سے گھن آنے لگی۔ دل چاہا میں خود کشی کرلوں۔ لوگوں نے اس شدت سے مجھے مارا تھا کہ میرا جسم لہولہان ہوگیا تھا۔ اگر ڈی ایس پی عمر حیات ان کو نہ روکتا تو وہ شاید مجھے مار کر ہی دم لیتے۔ کاش وہ ان لوگوں میں شامل نہ ہوتا۔
ایک طرف پڑے پڑے میرا جسم شل ہو چکا تھا۔ میں نے اپنے جسم کو ہلایا توبے اختیار میرے منہ سے کراہ نکل گئی۔ سارا جسم زخموں سے چور تھا۔ آنکھ کی تکلیف الگ مارے ڈال رہی تھی۔ منہ کا ذائقہ نمکین ہو رہا تھا اور دائیں جبڑے میں سخت درد۔ کالی داس نے مجھ سے کیا خواب انتقام کیا تھا، وہ تاک میں تھا۔ مجھے یقین تھا کہ لوگوں کو بھی وہی اکٹھا کرکے لایا تھا۔
سبین چیخی ضرور تھی لیکن بنگلہ اتنا بڑا تھا کہ اسکی ایک دو چیخیں کسی طور باہر سڑک پر نہیں سنی جا سکتی تھیں۔ یہ کار ستانی اس منحوس کالی داس کی تھی۔ مجھے حیرت اس بات پرتھی کہ بسنتی میری مدد کرنے کیوں نہیں آئی؟ میں نے کئی بار اسے پکارا تھا۔ ہو سکتا ہے کالی داس نے اسے کسی طرح بے بس کر دیا ہو۔ ایک بار جب رادھا جاپ میں مصروف تھی تو اس کمینے نے مجھے گھیر کر اپنا بدلہ لینے کا بندوبست کر لیا تھا لیکن اس دن بھلا ہو ملنگ کا کہ اس نے میری مدد کی تھی۔ تب میں بے قصور تھا جبکہ آج تو میں نے وہ جرم کیا تھا جس کی دنیا اور آخرت میں بدترین سزا مقرر کی گئی ہے۔ کاش لوگ مجھے موقع پر ہی سنگسار کر دیتے۔ میں اہل علاقہ کی نظروں سے گر گیا تھا۔ جب صائمہ کو معلوم ہوگا تو وہ کیا سوچے گی؟ کیا وہ زندہ رہ پائے گی؟ میں نے اس کے اعتماد کو دھوکہ دیاتھا۔
اونگھتا ہوا سپاہی اچانک کھڑا ہوگیا ۔مجھے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میں نے اکلوتی آنکھ کھول کر دیکھا تو بری طرح لرز گیا۔ ایک سپاہی کے ساتھ دو آدمی سلاخوں والے دروازے کے قریب پہنچ گئے۔ ایک کے ہاتھ میں کیمرہ تھا دوسرے کے ہاتھ میں چھوٹی سی ڈائری اور پین ۔وہ کسی اخبار کے رپورٹر تھے۔ میں نے ان کو دیکھ کر چہرہ چھپا لیا۔ جانتا تھا وہ میری تصویریں بنانے آئے ہیں انہیں اپنے اخبار کے لئے ایک دلچسپ سٹوری مل گئی تھی۔
’’ایک معروف بینک کے منیجر نے اپنی ماتحت لڑکی کی عزت لوٹ لی‘‘
’’جو رہی سہی عزت رہ گئی تھی اس کا بھی جنازہ نکلنے والا تھا۔ اگریہ خبر اخبار میں آجاتی تو کیا میں معاشرے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل رہ جاتا؟ جلدی سے میں تقریباً اوندھا ہوگیا۔کیمرے کی فلش چمکی۔ میں جس حد تک خودکو کیمرے سے بچا سکتا تھا میں نے کوشش کی۔ ان کے ساتھ آنے والے سپاہی نے ایک گندی سی گالی دے کر مجھے منہ اوپر کرنے کو کہا۔
’’حرامی! جس وقت اس معصوم کے ساتھ منہ کالا کررہا تھا اس وقت تجھے شرم نہ آئی اب منہ چھپا رہا ہے منہ اوپر اٹھا۔۔۔‘‘ وہ ایک اور گالی دے کر کڑک کر بولا۔
لیکن میں اسکی بات کیسے مان سکتا تھا؟ شدت سے رادھا کا منتظر تھا۔ اب اس معاملے کو وہی سلجھا سکتی تھی۔ کاش وہ آجائے اچانک مجھے رادھا کی بات یاد آگئی اسنے کہا تھا۔
’’اگر بات بسنتی کے بس سے باہر ہوجائے تو تم اس طرح مجھے پکارنا میں آجاؤں گی۔ دیوتاؤں کے کارن میری سہائتا کرو‘‘ حالانکہ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ صریح شرک ہے لیکن اس وقت عزت بچانے کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ شیطان نے مجھ پر اس قدر غلبہ پا لیا تھا کہ مجھے یہ خیال تک نہ آیا اگر میں سچے دل سے اللہ تعالیٰ کو پکارلوں جو شہہ رگ سے بھی قریب ہے تو وہ میری مدد ضرور کرے گا۔ بے شک میں نے ایک کبیرہ گناہ کیا تھا لیکن وہ تو غفور الرحیم ہے اپنے بندوں کی خطائیں معاف کر دیتا ہے۔ اور یہی اس کی شان کریمی ہے لیکن مجھ فاسق کو یہ خیال نہ آیا بلکہ میں شیطان کی اس چیلی کو پکارنا چاہتا تھا جسکی وجہ سے مجھے آج یہ دن دیکھنا پڑا تھا۔
’’دروازہ کھول ! میں ابھی اس بے شرم کی شرم اتارتا ہوں کیسے چھپنے کی کوشش کر رہا ہے حرامزدہ۔۔۔تمہارے کرتوت جان کرتوہمیں شرم آرہی ہے‘‘ جو سپاہی صحافیوں کے ساتھ آیا تھا اسنے گرج کر سامنے بیٹھے سپاہی سے کہا۔ اب لمحوں کی بات رہ گئی تھی۔ اس کے بعد اگر میں چاہتا بھی تو دنیا والوں کی زبان نہ روک سکتا تھا۔ صرف ایک دھوتی میں حوالات کے فرش پر اوندھا پڑا تھا۔ کوئی لمحہ جاتا تھا کہ وہ دروازہ کھول کر اندر آجاتے پھر میں کسی طرح بھی ان کے سامنے مزاحمت نہ کر سکتا تھا۔
’’رادھا تمہیں دیوتاؤں کا واسطہ میرے پاس آجاؤ‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ آنے والوں میں سے ایک کی آواز میرے کانوں میں پڑی۔ یہ یقیناً فوٹو گرافرتھا۔
’’چھوڑیں بھٹی صاحب! اگریہ تصویر نہیں بنوانا چاہتا توکوئی بات نہیں آئیں چلتے ہیں‘‘
مجھے اپ کانوں پر یقین نہ آیا کہ واقعی اسنے وہی کچھ کہا جو میں سن رہا ہوں۔‘‘
’’مراد۔۔۔! یہ تم کیا کہہ رہے ہو کہیں تم پاگل تو نہیں ہوگئے؟‘‘ دوسرے کی حیرت زدہ آواز سنائی دی۔ ساتھ ہی سپاہی جس نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تھا کہ آواز آئی۔
’’اسکی کیا مجال کہ یہ تصویر نہ بنوائے میں اس کی ۔۔۔‘‘ اسنے ایک ناقابل اشاعت قسم کی گالی دے کر کہا’’۔۔۔نہ کر دوں گا۔‘‘
’’جب میں کہہ رہا ہوں کہ اسکی ضرورت نہیں توبس بات ختم‘‘ فوٹوگرافر جھنجھلا گیا۔
’’جانتے ہو ایڈیٹر تمہارا کیاحال کرے گا؟‘‘ یہ اس کا ساتھی تھا۔
میں ان کی شکلیں تو نہیں دیکھ سکتا تھا ہاں آوازوں سے اندازہ لگا رہا تھا
’’تو میرا باپ نہ بن۔۔۔میں خود ایڈیٹر کو جواب دے لوں گا‘‘ فوٹو گرافر نے اس بار تلخ لہجے میں جواب دیا۔ ساتھ آنے والا سپاہی خاموش کھڑا ان کی بحث سن رہاتھا۔
’’بچو! ایک منٹ میں ایڈیٹر تمہیں نوکری سے نکال دے گا۔‘‘ ساتھی نے اسے ڈرایا۔
’’میں نے کہا ہے نا تومیرا باپ نہ بن سالے۔۔۔!میں خود دیکھ لوں گا ایڈیٹر کو بھی‘‘فوٹوگرافر چیخ اٹھا۔
’’تو میرا ماتحت ہے میری بات کیسے نہیں مانے گا؟‘‘ اس کا ساتھی بھی غصے میں آگیا۔ اسکے فوراً بعد دھماکے سے کسی چیز کے زمین پر گرنے کی آواز آئی۔
’’یہ لے ۔۔۔کھنچوا لے تصویر۔‘‘
میں نے چونک کر دیکھا فوٹوگرافر نے کیمرہ زمین پر مار کر توڑ دیا تھا۔ سب ہکا بکا کھڑے اسے دیکھ رہے تھے۔ اس نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ اپنے ساتھی کے منہ پر ایک زور دار مکا جڑ دیا۔ سپاہی آگے بڑھا تو اس نے اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا۔ مکا کھا کر سپاہی پیچھے کی طرف الٹ گیا۔ سنگین بردار سپاہی نے فوراً فوٹو گرافر پر گن تان لی لیکن وہ تو جیسے پاگل ہو چکا تھا۔ (جاری ہے )
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں