کپتان اور مستقبل کا عدل، کیا استحکام ہوگا؟
پنجابی کی کہاوت ہے ’’رنڈی تے رنڈاپا کٹ دی اے، پر مشٹنڈے تئیں کٹن دیندے‘‘ (مطلب یہ کہ بیوہ خاتون تو اپنی بیوگی میں ہی وقت گزار دینا چاہتی ہے، لیکن اس کے اردگرد والے مشٹنڈے اسے ایسا نہیں کرنے دیتے) کچھ ایسا ہی ہماری سیاست کا بھی کاروبار ہے اس میں اگر کوئی راہنما، کوئی لیڈر حق کا راستہ اختیار کرے اور خلاف قاعدہ کاموں سے گریز کی کوشش کرے تو اس کے اردگرد اس کی جماعت والے ایسا نہیں کرنے دیتے اس کی بڑی مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ کسی بھی سر براہ (جماعت یا حکومت) کو اپنے ساتھیوں خصوصاً منتخب اراکین کو ساتھ اور اکٹھا رکھنے کے لئے ان کے جائز و ناجائز مطالبات ماننا پڑتے ہیں، ماضی گواہ ہے کہ جب بھی کوئی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کسی اسمبلی کے اجلاس میں آتا تو اراکین فائلیں لے کر اس کی نشست پر باری باری یا وقفہ کے دوران گروپوں کی شکل میں جا کر منظوری لینا شروع کر دیتے اس میں کبھی کوئی استثنیٰ نہیں رہا، وہ محمد نواز شریف دو تہائی والے یا یوسف رضا گیلانی سادہ اکثریت والے تھے۔ معاملہ ایک ہی جیسا تھا حتیٰ کہ محمد شہباز شریف جو سخت منتظم مشہور ہو چکے تھے وہ بھی مستثنیٰ نہیں تھے اور ان کو بھی منظوریاں دینا پڑتی تھں، ورنہ ناراضی کا خدشہ رہتا تھا۔
اب حالات بدلے اور بقول کپتان نیا پاکستان بننے جا رہا ہے عمران خان کا اپنا مزاج اور پروگرم جیسا بھی ہو ان کی کپتانی میں آنے والے کھلاڑی تو پرانی پچ ہی کے ماہر ہیں اور ان کو کبھی لمبی ان سونگ کا سامنا نہیں ہوا اس لئے یہ سب جوق در جوق آئے بھی تو اقتدار ہی کے لئے ہیں کہ ہمارے دیہی سیاست دان حضرات کے مطابق پٹواری اور تھانیدار کے بغیر سیاست نہیں چلتی اور اقتدار کے بغیر پسند کا تھانیدار اور پٹواری لگوایا نہیں جا سکتا، تو اب صورت حال یہ ہے کہ کپتان کے کھلاڑی بھی تو چوکے چھکے لگانے کی آس لئے ہوئے ہیں، اس کا تجربہ تو پچھلے دو تین دنوں میں ہو گیا، بلکہ گزشتہ روز والا تو بہت ہی شہرت پا گیا، جب کراچی کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دیکھا گیا کہ ایک لینڈ کروزر والے شہری ایک سفید کلٹس والے شہری کو سر عام تھپڑ مار رہے تھے اور ان پر بس نہیں ان کے حفاظتی گارڈ کے سپاہی بھی اسی شہری کو دھکے دیتے دکھائی دیئے جس کی پٹائی ہوئی تھی، ویڈیو وائرل ہوتے ہی پتہ چل گیا کہ موصوف اے۔ او کلینک کے مالک ڈاکٹر محمد علی شاہ کے صاحبزادے ڈاکٹر عمران شاہ ہیں، جو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کراچی سے ایم۔ پی۔ اے ہو گئے ہیں۔
موصوف تو یہ سب کر کے چلتے بنے، ویڈیو وائرل ہو گئی اور کھوجی کھوج لگانے پر تل گئے سوشل میڈیا والوں کے مطابق محترم ایم۔ پی۔ اے نے تو اپنی والدہ ریحانہ شاہ کو بھی مبینہ طور پر تھپڑ مار دیا تھا۔ بہر حال ان صاحب کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا بہت تیز ہے۔ ویڈیو وائرل ہوتے ہی یہ کپتان کو پہنچا دی گئی اور انہوں نے فوری نوٹس لیا، اور انہی کی ہدایت پر ڈاکٹر عمران شاہ کو جماعتی نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر نوٹس جاری کر دیا گیا۔ موصوف کو احساس اور پریشانی یقیناً ہوئی جس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اس نوٹس کی اطلاع کے بعد متاثرہ شہری کے گھر پہنچ گئے اور معافی مانگ لی۔ اب ذرا بتایئے کہ وہ شہری تو پٹ کر بھی کچھ نہ کر سکا تھا تو اس صورت حال میں کیا کرتا، اس نے بھی تصویر بنوالی معاف کر دیا اور ڈاکٹر صاحب نے نوٹس کے جواب میں یہ ویڈیو وائرل کر دی۔ کپتان کے ایکشن کا اتنا تو ہوا، اب معلوم نہیں کہ نوٹس کا کیا بنے گا۔
اس سے پہلے ایک اور واقعہ بھی ہوا، جب کراچی تحریک انصاف کے ایک راہنما نے ایم کیو ایم کے بارے میں بعض ریمارکس دیئے وہ ایم۔ کیو۔ ایم ہی کیا جو صبر کرے فوراً جواب طلبی اور کپتان نے اپنے عہدیدار کو چپ رہنے کا حکم دے دیا، اور انہوں نے برملا کہا کہ میرے لیڈر کا حکم ہے اب نہیں بولوں گا۔ یہ دو مثالیں ہم نے کپتان عمران خان کے مزاج کے حوالے سے دی ہیں کہ وہ کرکٹ کے میدان میں بھی ایسے ہی تھے کہ اپنی ہدایت کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرتے تھے اور کھلاڑی میدان میں ان کی جھڑکیاں سنتے اور کبھی کبھار گالی بھی برداشت کر لیتے تھے۔ عمران خان کا یہ رویہ اب ان کا مزاج ہے وہ تو دوستی اور اپنی خانگی زندگی میں بھی ایسا کرتے۔ تاہم جب ان کو یہ یقین ہو گیا کہ وہ جیت چکے اور اب وزیراعظم کی کرسی تھوڑی دور ہے تو ان کے رویئے میں اچانک ہی تبدیلی محسوس کی گئی۔ طویل مشاورت سے اکتائے نہیں،ناروا بات بھی مانی اور بعض سمجھوتے بھی کئے، ان میں پہلے تو الیکٹ ایبلز والوں کو لیا، پھر ایم۔ کیو۔
ایم کا آسرا لینے اور نخرے اٹھانے پر مجبور ہو گئے، تاہم وہ مزاج کے مطابق اپنا ردعمل دینے سے بھی نہیں چوکے۔ قومی اسمبلی میں حلف کے لئے آئے تو پارلیمانی روایات کو نبھایا، زرداری اور بلاول ہی سے نہیں، محمد شہباز شریف سے بھی ملے اور یہ بھی کہا کہ جمہوریت کو مستحکم کیا جائے گا، سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ تاہم کراچی والے دو واقعات سے اندازہ ہوا کہ ان کے اندر کرکٹ والا کپتان ابھی موجود ہے۔ اس لئے ہمارا اندازہ ہے کہ حکومت سازی کے بعد جب ان کے سامنے فائلوں کا مسئلہ آئے گا تو ان کو خود کو مضبوط ہی ثابت کرنا ہوگا کہ یہ نازک لمحات ہوں گے اگر ذرا سے بھی چوکے تو پھر پھسلن سے پھسلنے کی طرح چلتے چلے جائیں گے۔ ہمیں ایسی کوئی توقع تو نہیں لیکن ان کے بعض اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی سمجھوتے کرنے پر مجبور ہوں گے، مثلاً انہوں نے سندھ کے لئے نامزد گورنر عمران اسماعیل کی سرگرمیوں کا نوٹس نہیں لیا جن کی وجہ سے اقتدار کی منتقلی سے پہلے ہی تنازعات شروع ہو گئے ہیں۔ موصوف عمران اسماعیل اتنے تجربہ کار نہیں جتنے ایم۔ کیو۔ ایم والے ہیں ان کو بھی 30 سال سے زیادہ کا تجربہ اور ایک سے ایک سیاسی جماعت کو چکر دینا آتا ہے۔ اس کے باوجود وہ ابھی سے ایم۔ کیو۔ ایم کو خوش اور پیپلزپارٹی کے ساتھ محاذ آرائی کے لئے فضا بنا رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے شاہ محمود قریشی بھی تو ہیں جو اپنے تئیں اتنے بڑے سیاست دان ہو چکے ہیں کہ ان کے نزدیک تو کپتان کیا ہیں؟ اگر ممتاز دولتانہ بھی ہوتے تو مات کھاجاتے، آخر انہوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا پانی بھی تو پیا ہے۔ چنانچہ جہانگیر ترین ان کا مقابلہ کیا کریں گے جو بقول ان کے نا اہل اور اسمبلی سے باہر ہیں۔
قارئین! یہ ہمارا تجربہ اور تجزیہ ہے تاہم دعا ہے کہ اب ملک میں استحکام آئے کہ ہم خود بہت ہی بری طرح مہنگائی اور حالات سے متاثر ہیں۔