پانی کا بحران
سنہ دوہزار تیرہ میں میاں نواز شریف نے حکومت سنبھالی تو ملک انرجی بحران کی گرفت میں تھا،شہر لوڈ شیڈنگ کے خلاف پُرتشدد مظاہروں سے دھک رہے تھے،بجلی کی قلت کے باعث ملک کا صنعتی ڈھانچہ مفلوج اور پیداواری عمل سست روئی کا شکار تھا تاہم نواز حکومت نے پُرشور مزاحمتی تحریکوں کی سرگرانی کے باوجود سرتوڑ کوشش کر کے کسی حد تک انرجی بحران پہ قابو پانے کے علاوہ انفراسٹرکچر کی تعمیر نو ممکن بنا کے مملکت کا بنیادی ڈھانچہ استوار کر لیا۔اب پانچ سال بعد جب تقدیر نے عمران خان کو عنان حکومت سونپی تو ملک کو پانی کے مہیب بحران کا سامنا ہے،نئی حکومت کیلئے آبی ذخائر کی تعمیر اور پانی کی قلت پہ قابو پانا بڑا چیلنج ہو گا،اگر پی ٹی آئی حکومت نے ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ میسر آبی وسائل کی بحالی ممکن نہ بنائی تو مستقبل کی دنیا میں ملک کیلئے زندہ رہنے کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔2013ء میں حکومت ملنے کے بعد عمران نے خیبر پختون خوا میں بلدیاتی سطح کی سیاسی اصلاحات کے علاوہ 300 چھوٹے ڈیم بنانے کے دعوے کئے لیکن پانچ سالہ دور اقتدار میں وہ ڈیموں کی تعمیر اور بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کا عہد نہ نبھاسکے، وہ بڑے دعووں کی بجائے فطرت کی طرح خاموشی سے اپنا فرض نبھاتے تو انہیں خفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا،کنفیوشس کہتے ہیں،اگردانش اور امن چاہیے تو فطرت کی طرح خاموشی سے کام کرنے کی عادت ڈالو‘‘بلاشبہ عمران خیبر پختون خوا کی سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی کے ذہنی جمود کا درست اندازہ لگانے میں ناکام رہے،سابق وزیراعلی پرویز خٹک نے اپنے عہد حکمرانی میں ڈیم بنائے نہ پہلے سے موجود آبی وسائل کی بحالی میں دلچسپی لی،خوش قسمتی سے ان سے پہلے آنے والی حکومتوں کی نااہلی اور بدترین کرپشن سے اکتائے ہوئے عوام کو تعلیم و صحت کے شعبوں میں ادھوری اصلاحات،کرپشن میں معمولی کمی اور پولیس نظام میں چند تبدیلیوں سے روشنی کی ایسی کرن نظر آئی جس سے امید پا کے عوام نے انہیں دوسری بار دو تہائی اکثریت سے نواز کے دوبارہ کام کرنے کی مہلت دی تاکہ وہ دہشتگردی اور کرپشن کے ہاتھوں اجڑے ہوئے صوبہ میں سیاسی اصلاحات اور چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کے ذریعے ایریگیشن سسٹم کو بہتر بنانے کے وعدوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔دیامیر بھاشا جیسے بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کیلئے پچھلی حکومتیں ابتدائی کام کر چکی ہیں،لہذا دو بڑے ڈیموں کے تعمیراتی عمل کا آغاز کر کے اب پی ٹی آئی درست سمت میں پیش رفت کر سکتی ہے۔
چشمہ لفٹ کینال جیسے آبپاشی کے عظیم منصوبہ کی تعمیر کی خاطر تحریک انصاف کی سابق حکومت نے مسلم لیگ کی وفاقی حکومت کے ساتھ ایسے معاہدہ پہ اتفاق کر لیا تھا جس میں نہر کی تعمیر کیلئے 65 فیصد وفاقی اور 35 فیصد فنڈ صوبائی حکومت دیتی لیکن خیبر پختون خوا حکومت کی مالی مشکلات کی وجہ سے لفٹ کینال کی تعمیر کا معاملہ التوا میں پڑا رہا،بعد میں وزیراعلی پرویز خٹک نے چین کی،چائنہ گچوکی گروپ آٖف کمپنیز(CGGC) سے معاہدہ کر کے لفٹ کینال کو سی پیک کا حصہ بنوا لیا،16 اکتوبر2017 کو خیبر پختون خوا کی طرف سے سیکریٹری آبپاشی طارق رشید اور چینی کمپنی کے ڈپٹی مینجر، لی ژونگ نے اس تاریخی معاہدہ پہ دستخط کئے۔119.6 بلین روپے کی لاگت سے پانچ سال کی مدت میں تعمیر ہونے والی2600 کیوسک کی 112 کلومیٹر لمبی لفٹ کینال سے ڈیرہ اسماعیل خان کی 2 لاکھ 60 ہزار 190 ایکڑز اراضی سیراب ہو گی،یہ نہر آٹھ سالوں کے اندر اپنی تعمیر پہ اٹھنے والے اخراجات نکال لے گی،اب خوش قسمتی سے جب وفاق اور صوبہ میں ایک ہی جماعت برسراقتدار ہے تو پی ٹی آئی حکومت لفٹ کینال کا جلد افتتاح کر کے جنوبی اضلاع کی زرعی معیشت اور قومی پیداوار کو بڑھانے کے وسائل مہیا کرسکتی ہے،لاریب،پشاور کے بعد خیبر پختون خوا کے دوسرے بڑے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی اٹھارہ لاکھ ایکڑ قابل کاشت اراضی کو آبپاشی کے وسائل کی فراہمی زرعی پیدوار میں قابل ذکر اضافہ کا وسیلہ بنے گی۔سنہ 1974 میں پیپلزپارٹی کے بانی ذولفقار علی بھٹو نے چشمہ رائٹ بنک کینال کی تعمیر کا فیصلہ کیا لیکن روایتی سیاسی اختلافات کی باعث مسٹر بھٹو آبپاشی کے اس عظیم منصوبہ کو عملی جامہ نہ پہنا سکے، 1979میں جنرل ضیاء الحق نے سی آر بی سی کینال کا سنگ بنیاد رکھ کے اس خطہ کی تقدیر بدل ڈالی،ساڑھے تین ہزار کیوسک پانی کی حامل 272 کلومیٹرز طویل اس بین صوبائی نہر کے ذریعے خیبر پختوں خوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی ساڑھے تین لاکھ اور پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کی تقربیاً ڈیڑھ لاکھ ایکڑ اراضی کو آبپاشی کے وسائل ملنے سے ایگرو انڈسٹریز کو فروغ ملا، وسیع رقبہ پر کماد کی کاشت کے باعث پچھلے تیس سالوں میں یہاں پانچ بڑی شوگر ملیں لگائی گیءں،بڑے پیمانے پہ گردش زر سے روزگار کے مواقع بڑھے تو افلاس زدہ علاقوں میں معاشی خوشحالی درآئی۔بدقسمتی سے دوہزار دس کے سیلاب میں سی آر بی سی کینال 45 مقامات سے ٹوٹی اور اس کا گدّ سپر اسٹریکچر تباہ ہو گیا،فلڈ کے بعد واپڈا نے چھوٹی موٹی مرمت کرکے نہر چالو تو کر دی لیکن گدّسپر اسٹریکچر کی خرابی کی وجہ سے کینال کا پورا ڈھانچہ کمزور ہو گیا جس سے واٹراتھارٹی کو ڈسچارج کم کرنا پڑا۔
واپڈا حکام کے مطابق ،نہر کی مرمت و بحالی کے علاوہ صرف گدّسپر اسٹریکچر کی تعمیر کیلئے36 کروڑ درکار ہیں،بین الصوبائی نہر ہونے کے ناطے مرمت و بحالی فنڈ کی فراہمی پنجاب اور خیبر پختون خوا حکومتوں کی ذمہ داری تھی،پنجاب نے اپنے حصہ کا فنڈ ریلیز کر دیا لیکن خیبر پختون خوا حکومت دس سالوں سے مرمت و بحالی کیلئے درکار اپنے حصہ کی رقوم دینے سے انکاری ہے۔اسکی ایک وجہ تو وسطی اضلاع کی اشرافیہ کا تعصب سے ممّلو وہ رویہ ہے،جو صوبہ کے انتہائی جنوب میں مقیم سرائیکی بولنے والی آبادی کو ہمیشہ اذیت میں مبتلا رکھتاہے،دوسرا سروسز فراہم کرنے والے محکموں کی روایتی بے حسی بھی آبپاشی کے اس عظیم منصوبہ کی ناقدری کا سبب بنتی ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان میں مجموعی طور پہ چھ لاکھ ایکڑز اراضی پہ محیط خیبر پختون خوا کا سب سے بڑا نہری نظام اور 36 سے زیادہ بڑے فلڈ کیرئرز ہیں جن کی مرمت و بحالی کیلئے سالانہ 60 ملین درکار ہوتے ہیں لیکن صوبائی انتظامیہ اس مد میں بمشکل 28 ملین ریلیز کرتی ہے، اس کے برعکس پشاور اور مردان کے 2 لاکھ44 ہزار ایکڑ پہ محیط نہری نظام کی بحالی کیلئے ہر سال دس گنا زیادہ فنڈ فراہم کئے جاتے ہیں۔
جنرل مشرف نے گومل زام ڈیم کی تعمیر کے ذریعے ٹانک اور ڈی آئی خان کی ایک لاکھ اکانوے ہزار ایکڑز اراضی کو قابل کاشت بنا کے بے آب وگیاہ علاقوں میں سبز انقلاب برپا کر دیا،پی ٹی آئی حکومت اگر چاہے تو صرف ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں ٹانک زام،شیخ حیدر زام، چودہوان زام اور درابن زام جیسے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر سے مزید آٹھ لاکھ ایکڑز اراضی کی سیرابی سے خیبر پختون خوا کو اناج کی پیداوار میں خود کفیل بنانے کے علاوہ افغانستان سمیت وسطی ایشائی ریاستوں کی گندم کی ضروریات پوری کرسکتی ہے۔تاریخ میں پہلی بار صوبائی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت پانے والی پی ٹی آئی خیبر پختون خواہ کی صوبائی اسمبلی سے کالا باغ ڈیم کی تعمیرکے حق میں قرار داد منظورکر کے قومی اتفاق رائے حاصل کرنے کی طرف پیشقدمی بھی کر سکتی ہے ،تحریک انصاف حکومت کو عوامی حمایت کے علاوہ ملک کے طاقتور ترین اداروں کا تعاون حاصل ہے اور عمران خان آبی ذخائرکی تعمیر کی خاطر عالمی برادری کی مدد حاصل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں،چنانچہ یہ بہترین موقعہ ہے کہ منتخب قیادت اس خطہ میں بسنے والے 22 کروڑ انسانوں کی بقاء کے لئے آبی ذخائر کی تعمیر کیلئے ایسی قومی واٹر پالیسی پیش کرے جس پہ وسیع تر اتفاق رائے کا حصول ممکن ہو جائے۔