نئے پاکستان میں یہ نہیں چلے گا!
کراچی میں تحریک انصاف کے ممبر سندھ اسمبلی ڈاکٹر عمران شاہ نے چلتی سڑک پر ایک شخص کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کی ویڈیو پہلے سوشل میڈیا اور پھر چینلوں پر چلی تو گویا ایک طوفان آ گیا۔ اسے ایک ایسی انہونی سے تعبیر کیا گیا، جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔یہی کام پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ (ن) کے کسی ایم پی اے نے کیا ہوتا تو شاید اتنا ہنگامہ بپا نہ ہوتا، کیونکہ ایسے واقعات تو بیسیوں ہو چکے ہیں، لیکن یہ معاملہ تھا تحریک انصاف کے ایم پی اے کا جو تبدیلی کی علمبردار ہے اور جس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ امیر ہو یا غریب سب کی عزت یکساں ہے۔ اس واقعہ پر جس طرح تحریک انصاف نے فوری کارروائی کی اس سے اندازہ ہوا کہ واقعی اب بدلی ہوئی فضا موجود ہے۔ واقعہ کے کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر عمران شاہ کو شو کاز نوٹس جاری کیا گیا، جس میں 24گھنٹے کے اندر وضاحت مانگی گئی کہ ایسا کیوں ہوا؟ نوٹس کے ایشو ہوتے ہی ایم پی اے نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا، جس میں اپنی وضاحت پیش کی اور معذرت بھی، لیکن غالباً پارٹی کے نزدیک یہ سب کافی نہیں تھا، اس کے فوراً بعد وہ اس شخص کے گھر گئے جسے تھپڑ مارے تھے اور بصدالتجا معافی مانگی۔ جب تک اس نے معافی نہیں دی، واپس نہیں آئے۔ یہ سب کچھ دو گھنٹے میں ہوا اور سب نے دیکھ لیا کہ اب’’ شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور‘‘ والی بات نہیں ہو گی، جو زیادتی کرے گا اُسے خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ میرے نزدیک یہ ایک بڑی تبدیلی ہے اور بہتری کی سمت ہمارے معاشرے کو لے جانے کا باعث بنے گی۔
یاد رہے کہ اِسی معاشرے میں بالا دستوں کے ہاتھوں کیسے کیسے سنگین واقعات رونما ہو چکے ہیں، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی، بلکہ غریبوں یا عام شہریوں کے ساتھ ظلم طبقہ اشرافیہ کا استحقاق سمجھا جاتا تھا۔ سابق ایم پی اے عبدالمجید اچکزئی کا واقعہ تو سب کو یاد ہی ہو گا۔ وہ محمود خان اچکزئی کے کزن تھے اور گورنر بلوچستان کے بھی چچا زاد بھائی، انہوں نے کوئٹہ میں ایک ٹریفک کانسٹیبل کو اپنی پجیرو تلے بری طرح روند ڈالا تھا۔ اُس کی ویڈیو کروڑوں لوگوں نے دیکھی، کئی دن تک پولیس نے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی، میڈیا کا دباؤ بڑھا تو انہوں نے ضمانت قبل از گرفتاری کرالی،جو خارج ہوئی تو اُنہیں گرفتار کر لیا گیا، تاہم حوالات میں ان کے لئے ایئر کنڈیشنر لگوایا گیا اور وی آئی پی سہولتیں دی گئیں۔ گورنر بلوچستان کے حکم سے ڈپٹی کمشنر نے ورثاء سے ڈیرہ غازی خان جا کر ملاقات کی اور راضی نامہ کرنے کے لئے دباؤ ڈالا، انہوں نے انکار کر دیا۔ گرفتاری سے پہلے عبدالمجید اچکزئی نے ایک بار پھر کوشش کی کہ مقتول کانسٹیبل کے ورثاء سے معافی مانگیں، اس کے بعد وہی ہوا، جو ہوتا ہے، اچکزئی ضمانت پر رہا ہو گئے اور کانسٹیبل کے بچے زندگی بھر رلنے پر مجبور کر دیئے گئے۔ ابھی چند ہی روز پہلے پیپلزپارٹی کے رہنما نبیل گبول نے کراچی ایئرپورٹ پر ایک شہری کو تشدد کا نشانہ بنایا، ویڈیو سب نے دیکھی، لیکن نبیل گبول کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔ پنجاب میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں، جب کسی ایم این اے یا ایم پی اے نے تھانے میں گھس کر ملزم چھڑائے، مزاحمت کرنے والے پولیس والوں کو تھپڑ بھی رسید کئے۔ فیصل آباد اور شیخوپورہ کی تاریخ تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔مسلم لیگ (ن)نے متعدد واقعات کے باوجود کبھی اپنے کسی رکن اسمبلی کے خلاف انضباطی کارروائی نہیں کی۔ایسی روایات کے ہوتے ہوئے تحریک انصاف نے چند گھنٹوں کے اندر اپنے ایم پی اے کو مجبور کردیا کہ وہ اپنے عمل کو درست ثابت کرے یا پھر کارروائی کے لئے تیار ہو جائے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایم پی اے ڈاکٹر عمران شاہ متاثر شخص کے دروازے پر معافی مانگنے پہنچ گیا،پارٹی اُس کے خلاف کیا کرتی ہے، یہ دیکھنا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین اور دیگر رہنماؤں کو اِس ایک واقعہ سے اندازہ ہوگیا ہو گا کہ عوام اُن سے کیا توقعات رکھتے ہیں؟ اُنہیں یہ بھی پتہ چل گیا ہوگا کہ صرف سیاسی مخالفین ہی نہیں، بلکہ عوام اور تحریک انصاف کے حامیوں کی بھی اُن پر گہری نظر ہے، اُن کی کوئی غلطی یا کوتاہی نظر انداز نہیں کی جائے گی،بلکہ اس کا اُنہیں حساب دینا پڑے گا۔ مَیں نے پہلے بھی ایک کالم میں لکھا تھا کہ یہی چیز تحریک انصاف کی کامیابی کا باعث بنے گی۔ عوام اگر اپنی جماعت کو الیکشن کے بعد بھلا دیں یا اُس سے لاتعلق ہو جائیں تو اُس کی کارکردگی بھی زوال کا شکار ہو جاتی ہے، تحریک انصاف کے لئے یہ سہولت موجود نہیں، اُس پر بیس کروڑ عوام کی نظر ہے، ماضی کی کوئی برائی تحریک انصاف کی حکومت میں قابلِ قبول نہیں رہی، اس واقعہ سے تحریک انصاف کے بالعموم اور دوسری جماعتوں کے ارکانِ اسمبلی بالخصوص ہوشیار ہوگئے ہوں گے۔ تحریک انصاف کے ارکان تو بالکل ہی ریڈار کی زد میں ہیں، وہ تھانے کچہری کی سیاست کرسکتے ہیں اور نہ کسی سے مل کر قبضہ کراسکتے ہیں۔ وہ کسی کرپٹ سول و پولیس افسر کی حمایت کرپائیں گے اور نہ ہی دونمبر دھندہ کرنے والے کسی بدقماش کی سرپرستی کر سکیں گے، تاہم جب اُن کی مثال بن جائے گی تو دیگر سیاسی جماعتوں کے ارکان اسمبلی بھی چوکنے ہو جائیں گے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ پہلے کی طرح کھیل کھیلتے رہیں،اُنہیں قانون کی گرفت کا بھی سامنا ہو گا اور عوام کے احتساب کا بھی۔ یہ فضا ختم نہیں ہوگی،بلکہ بڑھتی چلی جائے گی۔ عمران خان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنی گرفت ڈھیلی کردیں گے اور رفتہ رفتہ سب کچھ پہلے کی طرح چلنے لگے گا۔ اُن کی نظام پر گرفت مزید مضبوط ہو گی اور اگر انہوں نے ازخود احتساب کی دو چارمثالیں قائم کردیں تو کسی کی جرأت نہیں ہوگی کہ وہ قانون کو پسِ پشت ڈال کر من مانی کرسکے۔
بُری گورننس اُس وقت جنم لیتی ہے، جب اہلِ سیاست اور انتظامیہ کے مفادات ایک دوسرے کے محتاج ہو جاتے ہیں،جب حکومت کے سیکرٹریوں سے وزراء غیر قانونی کام لیتے ہیں، گویا اُن کے شکنجے میں آجاتے ہیں۔ ایک کام وہ اُن کا کرتے ہیں، دس کام اپنی مرضی سے کر جاتے ہیں، انہیں کون روک سکتا ہے۔ یہی حال اضلاع میں تعینات ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کا ہوتا ہے۔ وہ ارکانِ اسمبلی کو اپنا دستِ نگر بنا لیتے ہیں، اُن کی سفارش پر ناجائز کام ہنسی خوشی کرتے ہیں،کیونکہ اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد وہ اُس کے حامی بن جائیں گے، مخالفت ہر گز نہیں کریں گے۔ یوں یہ دونوں طبقے باہم شیرو شکر ہو کر عوام کا بدترین استحصال کرتے ہیں۔ ڈی پی او چاہے کتنا ہی ظالم اور رشوت خور ہو، روزانہ اُس کے خلاف خبریں شائع ہوتی ہوں،اُس کا کچھ نہیں بگڑتا، کیونکہ اُس کے سر پر علاقے کے ارکان اسمبلی کا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن اب ایسا نہیں ہو گا،کیونکہ تحریک انصاف نے اپنے ارکانِ اسمبلی کو اس قسم کی سیاست سے منع کر دیا ہے۔اب انتظامی و پولیس افسر آزاد ہوں گے، تاہم اُنہیں عوام کو مطمئن رکھنا پڑے گا۔رکن اسمبلی کی نسبت عوام کو مطمئن رکھنا کتنا مشکل ہے،اس کا اندازہ سرکاری افسران کو اب ہو گا۔ یہ ایک بہت بڑا گٹھ جوڑ ہے، جس کے ٹوٹنے کا وقت اب آ گیا ہے۔ شہباز شریف نے پنجاب میں یہ بدعت متعارف کرائی تھی کہ اگر ضلع کے چار ایم این اے کسی پولیس افسر کی سفارش کریں تو اُسے علاقے کا ڈی پی او لگا دیا جائے۔
اُس کے بعد وہ ڈی پی او اُن کے اشاروں پر ناچتا اور چُن چُن کر ایسے کرپٹ ملازمین کو ایس ایچ اوز لگاتا جو ایم این ایز کی خدمت بھی کر سکیں اور اُسے روزانہ ہزاروں روپے کا نذرانہ بھی پیش کریں۔اب ایسے میں امن و امان کی صورتِ حال کیسے بہتر ہو سکتی تھی،اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔عمران خان نے عوام کو جتنے بڑے بڑے خواب دکھائے ہیں، وہی اب اُن کا سب سے بڑا امتحان بن گئے ہیں۔ اُن کی ایک ایک بات پر عوام کی نظر ہے۔ عوام سے بھی زیادہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی اُن کے ہر اقدام پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد پر جتنی تنقید اِن دونوں جماعتوں نے کی ہے، شاید ہی کسی اور نے کی ہو۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ عمران خان یہ مشکل اننگز کامیابی سے کھیل جائے گا۔ اُس کی گراؤنڈ کے چاروں اطراف نظر ہے۔اُس نے سیاسی دشمنوں کو بھی دیکھنا ہے اور اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں پر بھی نظر رکھنی ہے۔ دوسری طرف عوام نے بھی تحریک انصاف کے ہر عمل پر نظر رکھی ہوئی ہے۔اگر کچھ کپتان کی نظروں سے اُوجھل ہو بھی گیا تو وہ انہیں یاد دِلا دیں گے۔بالآخر ہم اُس جمہوری دور میں داخل ہو گئے ہیں، جہاں جوابدہی کا عمل قدم قدم پر جاری رہتا ہے۔