کیا تحریک انصاف چین کو اپنا صنعتی ماڈل بنا سکے گی؟
چیئرمین تحریکِ انصاف، 25جولائی سے پہلے اپنے متعدد پبلک خطابات میں نئے پاکستان کے جو خدوخال دکھاتے رہتے تھے ان میں اگر کسی بیرونی قوم / ملک کو ماڈل بنا کر پیش کیا جاتا تھا تو وہ چینی قوم اور چین تھا۔
کسی بھی قوم کو ایک طاقتور ملک بننے میں کافی دیر لگتی ہے۔ملک کا نام رفتہ رفتہ ہی قوم کی پہچان بنتا ہے۔ امریکہ، روس، جاپان اور جرمنی کا نام زبان پر آتے ہی ذہن میں امریکی،روسی، جاپانی اور جرمن اقوام کا جو تصور ابھرتاہے وہ ان ممالک کے ساتھ گویا مدغم نظر آتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کا تکملہ یا تتمہ بنتے ہیں۔
امریکہ، روس، جاپان اور جرمنی وغیرہ نے تو عصرِ حاضر میں عروج پایا۔لیکن برطانیہ کا ذکر کرتے ہی پوری انگریز (برطانوی) قوم کا علم و فضل، تدبر، حکومت، عدل و انصاف وغیرہ کی تصویر آنکھوں تلے گھوم جاتی ہے۔یہی حال کبھی مسلم قوم کا بھی تھا لیکن وہ اسلام کی قرونِ اولیٰ کے مسلمان تھے، قرونِ وسطیٰ میں مسلمانوں کا زوال اور افرنگ کا عروج ایک ساتھ شروع ہوا۔ اگر ساتویں صدی عیسوی میں مسلم امہ کا ’’خُلقِ عظیم‘‘ اس کی ترقی اور خوشحالی کا باعث بنا تو سترہویں صدی میں افرنگی اقوام کا ’’ظُلمِ عظیم‘‘ اس امہ کی زبوں حالی کا سبب بنا!۔۔۔ ان اقوامِ مغرب نے مسلم قوم کو اس سکیل اور اس انداز سے لوٹا کہ سیاہ کو سفید بنا کر پیش کیا۔ انگریز حکمرانوں کا ’’عدل و انصاف‘‘ آج بھی ہمارے کئی بڑے بوڑھوں کی زبان پر جاری سنائی دیتا ہے۔ یہ افرنگی، زیرِ تسلط اقوام کا وہ ورثہ لوٹ کر اپنے ہاں لے گئے جو ان اقوام کا سرمایہ ء افتخار تھا۔ اقبال نے ’’خطاب بہ جوانانِ اسلام‘‘ والی نظم میں جب یہ کہا تھا تویہی رونا رویا تھا :
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سِیپارا
اقبال سے پہلے مولانا حالی نے بھی یہی ماتم کیا تھا:
نہیں خالی ضرر سے وحشیوں کی لوٹ بھی، لیکن
حذر اس لُوٹ سے جو لُوٹ ہو علمی و اخلاقی
اخلاق کسی بھی قوم کا عظیم سرمایہ ہوتا ہے۔افرنگی اقوام نے ڈبل گیم کھیلی۔پنجابی محاورے کے مطابق دکھائی ’’سجیّ‘‘ اور ماری ’’کھبیّ‘‘۔۔۔ دکھایا انصاف اور کی بے انصافی۔۔۔ دکھایا عدل اور کیا ظلم، اور دکھائی گڈگوررننس اور کی بدترین حکمرانی!۔۔۔ اقبال اور جناح نے جب مسلمانانِ ہند کو انگریز کے اس فریب سے آگاہ کیا تو اس قوم نے بیدار ہونا شروع کیا۔چونکہ انگریزوں نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا اس لئے وہ ہندوؤں سے خائف نہیں تھے، مسلمانوں سے ڈرتے تھے۔ لیکن وائے خود فراموشی کہ 1947ء میں ہم نے آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے انگریز آقاؤں کا سا وتیرہ اپنایا اور اپنے آباء و اجداد کی تاریخ بھول گئے۔ صد شکر کہ اب قوم نے انگڑائی لی ہے اور گویا خوابِ گراں سے بیدار ہونے لگی ہے۔ خدا کرے یہ بیداری بھی ’’گراں خواب چینیوں‘‘ کی بیداری کی مثیل ثابت ہو جو اس طرح سنبھلے کہ ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے اور دلِ طورِ سینا وفاراں اس طرح دو نیم ہو گیا کہ وہاں کے کلیم، تجلی کے منتظر رہنے لگے!
بات کسی اور طرف نکلی جا رہی ہے۔۔۔ میں آپ کو بتا رہا تھا کہ عمران خان چین کی مثال دیتے رہے کہ انہوں نے فلاں منزل سر کر لی اور فلاں معرکہ مار لیا اور 400چینی افسروں کو کرپشن کے مقدمات میں تختہ ء دار پر کھینچ دیا۔ چین کی آبادی آج 1.41بلین ہے اور پاکستان کی آبادی اس کا تقریباً چھٹا ساتواں حصہ ہے۔ اس حساب سے اگر پاکستان 400 کا ساتواں حصہ یعنی 50،60کرپٹ لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دے تو سوچئے کیا ہوگا؟۔۔۔کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں؟۔۔۔ کیا ہماری کسی سطح کی عدالتیں ایسا کر سکتی ہیں؟۔۔۔ ہر گز نہیں۔۔۔ ہمارا معاشرہ ایک لبرل یا نیم لبرل اکثریت پر مشتمل معاشرہ ہے۔ عدالت جب کسی ایک آدھ راشی اور کرپٹ شخص کو سزائے عمر قید بھی دیتی ہے تو آدھا پاکستان چپ سادھ لیتا ہے اور آدھا ’’بہ فیضِ میڈیا‘‘آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔۔۔ پس ثابت ہوا کہ ہم چین کی تقلید نہیں کر سکتے۔
عمران خان دوسری مثال یہ دیا کرتے ہیں کہ چین نے ایک محدود مدت میں اپنی غریب آبادی کا ایک تہائی حصہ غربت کی لکیر سے اٹھا کر اسے مڈل کلاس میں تبدیل کر دیا ہے۔۔۔لیکن یہ بھی دھیان میں رہے کہ چین میں کسی خاندان کو تیسرا بچہ پیدا کرنے کی اجازت نہیں اور ہر شادی شدہ بالغ جوڑے کو اپنے کسبِ روزگار کے لئے جاب کرنا پڑتا ہے جبکہ ہمارے ہاں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کا سب سے زیادہ پلس پوائنٹ اس کی 66فیصد آبادی کا 30سال سے کم عمر ہونا ہے۔ اور دوسرا وہ ’’فیملی سسٹم‘‘ ہے۔ جس کو خیر باد کہہ کر ہم نہ دین کے رہیں گے، نہ دنیا کے۔۔۔ یہ سسٹم ہماری بقا کا محافظ ہے اور اس کا مرکزی کردار ’’عورت‘‘ ہے جو کبھی ماں بن کر اور کبھی بیوی بن کر اس سسٹم کو قائم رکھتی ہے۔وہ بیک وقت تین خاندانوں کو سنبھالتی ہے۔۔۔۔ ایک اپنے خاوند کو، دوسرے اپنی اولاد کو اور تیسرے (اور سب سے اہم) خاندانی رشتوں کو۔۔۔یہ تین بوجھ کوئی بھی مغربی یا چینی ماں یا بیوی نہیں سنبھال سکتی۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہی خاندانی نظام اور رشتے ناتوں کے یہی بندھن ہماری سوشل رِدا کا مضبوط ترین تانا بانا ہیں!۔۔۔ پاکستان سے اگر غربت کا خاتمہ کرنا مقصود ہے تو پورے فیملی سسٹم کو اوپر اٹھانا اور غربت کی لکیر سے مڈل کلاس میں لانا ہوگا۔ یہ چیلنج دِقت طلب بھی ہے اور وقت طلب بھی۔ہمیں دِقت اور وقت دونوں کا بیک وقت احساس کرنا اور اسے استعمال کرنا ہے۔ اگر ہم اپنے دو پنج سالہ منصوبوں کو یکے بعد دیگرے اس فارمولے کو مدنظر رکھ کر ترتیب دے لیں تو آنے والے عشرے میں غربت میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی قدغنیں،چین کے مقابلے میں انمل بے جوڑ ہیں۔ (اس کا ذکر پہلے کر چکا ہوں)۔ کوئی مسلم فرمانروا تاریخِ عالم میں ایسا نہیں جس کی مثال دی جاسکے کہ اس نے ’’فیملی پلاننگ‘‘ کرکے معاشرے کو غربت سے نکالا تھا۔ ہمارے ہاں ہر آنے والی حکومت محکمۂ بہبودِ آبادی کو نئی زندگی دینے کا اعلان تو کرتی ہے لیکن ہر بار کئی ملین بچوں کو نئی زندگی عطا کردیتی ہے۔۔۔۔ اللہ اللہ خیر سلا!
برسبیلِ تذکرہ چین میں ان کی اپنی اور ’’وکھری‘‘ قسم کی جمہوریت پائی جاتی ہے جو مغربی (اور پاکستانی) جمہوریت سے بالکل مختلف ہے۔ حکومتی قوانین پر بڑی سختی سے عمل کروایا جاتا ہے ۔اور یہ کلچر صرف چین ہی میں نہیں بلکہ اس خطے کے دوسرے ممالک مثلاً جاپان، کوریا، ویت نام اور برما تک پھیلا ہوا ہے اور اس کے ڈانڈے شدت پسندی کے لیول تک جڑے ہوئے ہیں۔۔۔۔حال ہی میں (شائد 5,4 روز پہلے)چین کی مسلم اکثریت والے ایک صوبے ننگشیا(Ningxia) میں تعمیر ہونے والی ایک عالیشان مسجد کو مسمار کرنے کے احکام دے دئے گئے۔ وجہ یہ تھی کہ مسجد کے گنبد اسلامی طرزِ تعمیر کے حامل تھے جیسے ہمارے لاہور کی شاہی مسجد کے ہیں۔ چینی حکومت نے حکم دیا کہ یا تو ان گنبدوں کو پگوڈوں کی شکل میں از سر نوتعمیر کیا جائے یا حکومت ازخود ان کو مسمار کردے گی۔ مسجد انتظامیہ کو 10اگست2018ء (بروز جمعہ) تک تعمیلِ حکم کا ’’مژدہ‘‘ سنایا گیا۔ ہزاروں مسلمان احتجاج کرتے ہوئے صحنِ مسجد میں اکٹھے ہوگئے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق مسجد کے گنبدوں کی طرزِ تعمیر تبدیل کرنے کے لئے چند روز کی مہلت دے دی گئی ہے!
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چین میں ’’برائے نام مذہبی آزادی‘‘ کے نام پر حکومت کا معاشرے پر کتنا سخت کنٹرول ہے! پاکستان میں اگر آج یہ حکم دے دیا جائے کہ ’’خاندانی منصوبہ بندی‘‘ میں مذہی رہنماؤں سے بھی مدد کی درخواست کی جائے تو سوچئے کیا کیا مناظر تخلیق ہوں گے۔۔۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم پاکستان میں چین کی طرح کا پاپولیشن کنٹرول کلچر لاگو نہیں کرسکتے۔
میں ایک عرصے تک چین کی ہمہ جانبی ترقی کا مداح رہا اور اپنے آپ سے سوال کرتا رہا کہ اگر چین نے صرف چند عشروں میں یہ ناقابلِ یقین کامیابیاں حاصل کرلی ہیں تو اس کا راز کیا تھا، اس کا قابلِ تقلید فارمولا کیا ہے اور کیا پاکستان اس فارمولے کو اپناسکتا ہے؟۔۔۔ میرا جواب ہر بار نفی میں نکلا۔ آپ اگر چین کی متداول تاریخ کا مطالعہ کریں او ر اس کی ’’ترقی اور خوش حالی‘‘ کی موٹی موٹی وجوہات جاننا چاہیں تو وہ مندرجہ ذیل ہوں گی:
1۔ چین نے پہلے مغرب سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے گُر سیکھے اور پھر اس تمام ’’سرمائے‘‘ کو اپنے ہاں منتقل کیا۔
2۔انڈسٹریل جاسوسی میں کمال حاصل کیا۔ ترقی یافتہ مغربی ممالک سے بڑے بڑے صنعتی راز چرائے اور چوری شدہ معلومات کو اپنے ہاں لاکر حوالۂ حکومت کیا جس نے بڑے بڑے پراجیکٹوں کا آغاز کیا۔
3۔ ان پراجیکٹوں کو پرائیویٹائز کرکے اور ان میں مغرب سے ماہرین منگواکر انہیں مختلف برانچوں میں تعینات کیا اور ان میں مکمل ہونے والی پراڈکٹس پر ٹیکس کی چھوٹ دی ۔
4۔ان مصنوعات کو برآمدی معیار کی مصنوعات کے برابر لانے میں حکومت کی طرف سے ’’فیاضانہ سبسڈی ‘‘دی گئی۔
5۔ان مصنوعات کی دوسرے ملکوں میں تیار کی ہوئی متبادل برآمدات ختم کردی گئیں۔
6۔باہر سے جو کمپنیاں چین میں لائی گئیں ان کو اس امر کا پابند بنایا گیا کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی، چینی کمپنیوں کو ٹرانسفر کریں۔
7۔انٹلیکچویل رائٹس (اختراعی حقوق) کی پوری طرح پابندی کی گئی۔
8۔چین کی مقامی ورک فورس کو مجبور کیا گیا کہ وہ ارزاں مشاہرے قبول کرے یا بیروزگاری کا سامنا کرے۔
9۔ اپنی افرادی قوت کو باہر کے ملکوں میں جاکر ملازمت کرنے سے حکماً روک دیا گیا۔ صرف وہی مستری، کاریگر، ہنرمند، نیم ہنر مند، انجینئرز اور انتظامی امور کا تجربہ رکھنے والوں کو بیرون ملک جاکر صرف اور صرف انہی منصوبوں پر کام کرنے کی اجازت دی گئی جو چینی انتظامیہ کے تحت وہاں آپریٹ کرنے کے پابند تھے۔ ان منصوبوں کو دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے منصوبوں کے مقابلے میں سستے نرخوں پر قائم کیا گیا۔
10۔ ملک کے اندر بڑے بڑے کارخانوں میں اس کوئلے کا استعمال کیا گیا جو چین کے اندر پایا جاتا ہے۔ کوئلے سے چلنے والے ان کارخانوں میں آئے روز دھماکے ہوتے رہتے ہیں اور لوگ موت کے گھاٹ اترتے رہتے ہیں لیکن ان کی بھٹیوں کو بجلی پر منتقل نہیں گیا۔ بیجنگ اور شنگھائی جیسے شہروں پر سال پھر سموگ اور دھند چھائی رہتی ہے لیکن بھر بھی کوئلے کا استعمال ترک نہیں گیا کیونکہ اس سے آپریشنل لاگت (Cost)میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔
11۔جو مصنوعات چین سے باہر برآمد کی جاتی ہیں، ان کی قیمتیں، دوسرے ملکوں کی برآمدات کے مقابلے میں کہیں کم رکھی گئیں۔ اس لئے امریکہ، یورپ، ایشیاء اور افریقہ کی مارکیٹیں Made in China مصنوعات سے لبالب بھری رہتی ہیں۔
12۔ماس پروڈکشن کی تھیوری پر عملدرآمد سے لاگت اور قیمتِ فروخت میں وہ تناسب حاصل کر لیا گیا جو توازنِ تجارت کو چین کے حق میں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کا مال دوسرے ملکوں میں اتنی تعداد/مقدار میں برآمد کیا جاتا ہے جس سے آج چینی معیشت دنیا کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر جا رہی ہے۔
اور اب آخری بات۔۔۔جن نکات کا ذکر درج بالا سطور میں ذکر کیا گیا ہے ان کی تقلید کرنے کے لئے پاکستان میں داخلی استحکام از حد ضروری ہے۔جب تک پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آتا، ہم چین کی پیروی نہیں کر سکتے۔چین کے زرِمبادلہ کے ذخائر ’’ہوش ربا‘‘ ہیں اور پاکستان کے ذخائر بھی ’’ہوش ربا‘‘ ہیں۔ لیکن ان دونوں ’’ہوش رباؤں‘‘ کے معانی اور مفہوم میں جو بُعدالمشرقین پایا جاتا ہے، اس کو دور کرنے کے لئے پاکستان کو کم از کم 20برس تک مزید محنت کرنا پڑے گی۔