ترقیاتی منصوبے اور نیا پاکستان

ترقیاتی منصوبے اور نیا پاکستان
ترقیاتی منصوبے اور نیا پاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قوم نے71واں یوم آزادی بڑی شان و شوکت سے منایا ہے۔پاکستانی قوم کو یوم آزادی کے موقع پر جمہوریت کا تحفہ بھی ملا ہے۔ تیسری دفعہ ہماری پارلیمینٹ حلف اُٹھا چکی ہے، کل ہمارے نئے وزیراعظم حلف اُٹھا رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور نئے وزیراعظم پاکستان عمران خان25جولائی کا الیکشن جیت کر صرف وزیراعظم نہیں بنے،بلکہ سوشل میڈیا، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کا پُل صراط بھی عبور کر کے وزیراعظم بن رہے ہیں۔

گزشتہ چھ ماہ سے جاری کردار کشی کی مہم سے جو اخلاقی قدروں کی پامالی کے دریا عبور کئے ہیں،اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، دو پارٹیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور خود کو بہتر ثابت کرنے کے لئے جس حد تک گئی ہیں اللہ کبھی دوبارہ ہماری قوم کو موقع نہ دے۔عمران خان کی تحریک انصاف کی طرف سے نئے پاکستان اور تبدیلی کے جس انداز میں فحاشی، عریانی لغویات سے جوڑنے کی کوشش کی گئی اس کی بھی کسی صورت حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی، تبدیلی ایسا عمل ہے جو ہر فرد چاہتا ہے، بہتری کی امید کے ساتھ71سال سے ہم اس نظام کے ساتھ منسلک ہیں، استحصال کا نظام، پولیس گردی کا نظام ، فرقہ واریت کا نظام،مسلکی چنگل میں پھنسا ہوا نظام، بے روزگاری کے عفریت کا نظام، نظام تعلیم کا دوہرا نظام سب بری طرح ہمارے معاشرے کو جھکڑے ہوئے ہیں اس سے چھٹکارا ہر فرد چاہتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کے قیام سے اب تک تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے نعرے اور وعدے تو بہت لگائے اور کئے، مگر عملی طو پر کوئی بھی تبدیلی لانے میں ناکام رہے، اگر عمران خان کی پارٹی نے تبدیلی کا نعرہ دے دیا ہے تو صبر کے ساتھ ان کو بھی موقع دینا چاہئے نہ کہ تبدیلی کے نام پر بننے والی تحریک انصاف کو ہی مختلف انداز میں رگڑا دینے کا پروگرام بنانا چاہئے۔
بات دوسری طرف نکل گئی آج کے کالم میں جو بات کرنا چاہتا تھا اس کی طرف آتا ہوں، ہماری جمہوری حکومت کی روایات زیادہ اچھی نہیں ہیں۔ ہر نئی آنے والی حکومت نے کبھی رخصت ہونے والی حکومت کے جاری پروگراموں کو آگے نہیں بڑھایا، ان کے شروع کئے گئے ترقیاتی کاموں کو کبھی پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچایا، سینکڑوں ایسے ترقیاتی کاموں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں، درجنوں ایسے تعلیمی اور زرعی منصوبوں کی بات کی جا سکتی ہے ایک حکومت نے شروع کیا 10ارب کا منصوبہ تھا، پانچ ارب لگ چکے تھے حکومت چلی گئی قوم کا پانچ ارب جو لگ چکا تھا وہ بھی ختم،جو پانچ ارب لگنا تھا وہ بھی ختم۔میاں برادران کی مجموعی بات نہیں کرتا۔

البتہ میاں محمدشہباز شریف کے مغلیہ طرزِ حکومت کی بات ضرور کروں گا ان کا فلسفہ رہا ہے ایسے کام کر جائیں جو صدیوں یاد رہیں، پُل، سڑکیں،میٹرو،موٹروے، مونو ٹرین، سپیڈو۔

یہ اس کی مثال ہیں یقیناًیہ سارا پروگرام میاں نواز شریف کا ہو سکتا ہے،لیکن اِس لئے ان کو سو فیصداس کا کریڈٹ نہیں دیا جا سکتا کہ میاں شہباز شریف نے پنجاب میں سب کچھ کرکے دکھایا ہے

۔پنجاب میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص انہوں نے ایک تاریخ رقم کی ہے، پنجاب سمیت ملک بھر میں سب سے اہم مسئلہ ٹرانسپورٹ کی فراہمی ہے اس کے لئے میاں شہباز شریف کے میٹرو بس، سپیڈو، فونو ٹرین کے منصوبوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔لاہور کے بعد ملتان، راولپنڈی میں میٹرو کے منصوبوں نے عوام کی بڑی مشکلات کو حل کیا ہے۔ میٹرو بس سے سپیڈو تک کی تکمیل کے لئے اہل لاہور جس آزمائش سے گزرے ہیں اس کو بھلایا نہیں جا سکتا، اب جبکہ ہزاروں افراد روزانہ کی بنیاد پر اس سے استفادہ کر رہے ہیں اس کو صرف اِس لئے ختم نہیں کر دینا چاہئے کہ یہ گزشتہ حکومت کے منصوبے ہیں۔
مونو ٹرین کا منصوبہ بھی یقیناًاہل لاہور کے لئے مثالی ثابت ہو گا۔ہم اہلِ اقبال ٹاؤن تو اس کے بنیادی طور پر سٹیک ہولڈر ہیں، سینکڑوں افراد دھول اور دھوئیں کی وجہ سے دَمے کے مریض بن چکے ہیں، اب جبکہ میاں شہباز شریف نے جاتے جاتے اس کا جلد بازی میں افتتاح تو کر دیا ہے، مگر ابھی بھی اس کو مکمل کرنے کے لئے وقت درکار ہے، اربوں روپے کے منصوبے پر سیاست کرنے کی بجائے اس کو فوری طور پر مکمل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔

عمران خان نے جس انداز میں 13 اگست کو حلف اٹھانے کے بعد آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، میاں شہباز شریف اور دیگر رہنماؤں کو کھلے دِل سے گلے لگایا ہے،اس کی تحسین کی جانی چاہئے۔ عمران خان کو کل وزیراعظم کا حلف پڑھنے کے بعد گزشتہ حکومتوں کی روایات کو بھی توڑنا ہو گا، نئی روایت قائم کرتے ہوئے تبدیلی کی بنیاد رکھنا ہو گی۔ گزشتہ حکومت کے جو بھی منصوبے لاہور سمیت ملک بھر میں جاری ہیں ان کو عوامی مفاد میں فوری مکمل کرنے کو ترجیح اول بنانے کا اعلان کرنا ہو گا، یقیناًعمران خان کے اس اقدام کو عوام میں نہ صرف پسند کیا جائے گا، بلکہ تحریک انصاف کے تبدیلی کے نعرے پر عمل درآمد کی طرف پہلا قدم قرار دیا جائے گا۔

عمران خان کا وزیراعظم ہاؤس میں نہ رہنا اور گورنر ہاؤسز کو تعلیم کے لئے استعمال کرنا شاید اتنا اہم نہ ہو جتنا گزشتہ حکومتوں کے شروع کئے گئے منصوبوں کو مکمل کرنا ہو گا۔

ہر منصوبہ خواہ وہ مونو ٹرین کا ہو یا میٹرو بس کا،موٹروے کا ہو یا سی پیک کا،کراچی کے فلائی اوور کا ہو سب عمران خان کی توجہ کے منتظر ہیں،کیونکہ اربوں روپے قوم کے لگ چکے ہیں اگر اِن کو مکمل نہ کیا گیا تو قوم کے اربوں روپے ضائع ہوں گے، یہ منصوبے میاں شہباز شریف یا زرداری کے نہیں۔ عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ مبارک، ساری توجہ عوام کی طرف دے دیں جو واقعی تبدیلی کے منتظر ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -