معاشی استحکام کیسے ممکن ہے؟؟؟

معاشی استحکام کیسے ممکن ہے؟؟؟
معاشی استحکام کیسے ممکن ہے؟؟؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان تحریک انصاف کی آنے والی حکومت کو بیک وقت کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ جن میں سب سے اہم ملکی معیشت کو بحران سے نکالنا ہے۔ متوقع وزیراعظم عمران خان اور وزیر خزانہ اسد عمر کی صلاحیتوں کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ معاشی استحکام کیلیے کوئی انقلابی اقدامات کرپاتے ہیں یا حسبِ سابق ماضی کی حکومتوں کی طرح مزید غیر ملکی قرضے لینے کی راہ اپناتے ہیں۔ خبر ہے کہ دوست ممالک چین اور سعودی عرب کی زیرِ سرپرستی چلنے والا اسلامی ترقیاتی بینک پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کیلیے آسان شرائط پر قرضے دینے کیلیے آمادہ ہیں۔ لیکن ہم آخر کب تک کشکول ہاتھ میں لیے بھیک مانگتے رہیں گے؟؟؟ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمیں آٹھ سے نو ارب ڈالرز کے غیر ملکی قرضے چھ ماہ سے لے کر ایک سال کی مدت کے اندر ادا کرنے ہیں۔ اس لیے ہمیں ممکنہ طور پر آئی ایم ایف کے پاس جانے کے آپشن پر غور کرنا ہوگا۔ 
ماہرین معاشیات بتا چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کی معیاری شرائط کے مطابق ہمیں اپنی کرنسی کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں کم کرنا ہوگی۔ اور ہمیں بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ہاں بجلی کے نرخ پڑوسی ممالک بھارت اور بنگلہ دیش سے دگنے ہو چکے ہیں۔ ماہرین معاشیات کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے ہماری ایکسپورٹ بری طرح متاثر ہوگی کیونکہ ہمارا تاجر اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ کو آئی ایم ایف پر کس قدر اثرورسوخ حاصل ہے۔ اگرچہ بظاہر امریکہ اس وقت ہمیں مالی امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے مگر دراصل امریکہ کے عزائم اچھے نظر نہیں آرہے۔ امریکہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرکے ہمیں دیوالیہ پن کی طرف دھکیل سکے۔ مزید قرضوں کی شیطانی دلدل میں پھنس کر ہم کبھی معاشی استحکام حاصل نہیں کر سکتے۔
1988 سے ہر نئی آنے والی حکومت نے قرضے لیے اور ماضی کے تجربات ثابت کرتے ہیں کہ یہ ہمارے معاشی بحران کا کوئی خاص پائیدار حل نہیں ہے۔
ہمارے پاس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے معاشی بحران سے نمٹنے کا ایک نادر موقع جوہاتھ آیا تھا وہ بھی ن لیگی حکومت کی غلط منصوبہ بندی کے باعث ضائع ہوگیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غیر ملکی اثاثے ڈکلیئر کرنے کیلیے سرمایہ پاکستان واپس لانے کی شرط رکھی جاتی۔ مگر اس کے برعکس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں کہا گیا کہ غیر ملکی سرمایہ وطن واپس لائے بغیر ڈکلیئر کرلیں۔ پاکستان چیمبر آف کامرس نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی شدید مخالفت بھی کی تھی مگر ن لیگی حکومت نے اس کا کوئی خاص نوٹس نہ لیا۔ 
غیر ملکی سودی قرضوں کی دلدل سے تب ہی ہم خود کو نکال سکتے ہیں ، کہ ہم لوٹی ہوئی قومی دولت واپس پاکستان لائیں۔ صرف کڑا احتسابی عمل ہی بدعنوان سیاسی مافیا کی لوٹ مار کا سدباب ہے۔ یہ ہی بدعنوان سیاسی مافیا ملکی معاشی بحران کا اصل ذمہ دار ہے ،جوبرسوں ملک کو نوچتا رہا۔ اگر کشکول توڑنا ہے تو قومی چوروں سے پائی پائی وصول کرنی ہوگی۔ اگر ہم ایسا کڑا احتساب کرنے میں ناکام رہے تو ہم مزید قرضے لے کر بھی حالات کو نہیں سدھار پائیں گے۔ لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لانے کیلیے جو بھی قانونی اور آئینی تقاضے ہیں ، وہ پورے کرنے ہوں گے۔ ہمیں اپنے نظام کی اصلاح کرنی ہوگی۔ ہمیں دوسروں کی مدد لینے کی بجائے اپنی مدد آپ کرنی ہوگی۔ 
پاکستان امیر عوام کا غریب ملک ہے ، جس کی بڑی وجہ معاشی عدم مساوات ہے۔ یہاں انفرادی حثیت میں لوگ امیر سے امیر تر , اور غریب لوگ غریب سے غریب تر ہورہے ہیں۔ ہمارے دولت کی تقسیم اور گردش انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ یہ کیسا غریب ملک ہے جہاں ہر سال ایک طرف پرتعیش کاریں امپورٹ ہو رہی ہیں جبکہ دوسری طرف غریب بھوک سے خودکشیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کیلیے ٹیکس وصولی کے نظام کو بہتر بنانے، ٹیکس چوری روکنے اور دولت کی منصفانہ تقسیم کا نظام وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 

۔

نوٹ:  روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

مزید :

بلاگ -