فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر497
کیفی اعظمی نے فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ میں ایک نیا تجربہ کیا۔ پہلا تجربہ تو فلم ساز نے یہ کیا کہ پنجابی کی اس کلاسیکی کہانی کو اردو میں فلمانے کا منصوبہ بنایا۔ پھر دوسرا تجربہ کیفی اعظمی نے یہ کیا کہ اس فلم کے تمام مکالمے منظوم لکھے۔ نثر کا کہیں بھی استعمال نہیں کیا۔ اس فلم میں گانے بھی تھے لیکن مکالمے سب کے سب منظوم تھے۔ اردو کی یہ بھارتی ’’ ہیر رانجھا‘‘ 1972ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس سے پہلے 1970ء میں فلم ساز اداکار اعجاز درانی اور مسعود پرویز نے پنجابی میں ’’ ہیر رانجھا‘‘ بنا کر اس داستان کو واقعی امر کر دیا تھا۔ مسعود پرویز اس کے ہدایت کار تھے۔ نغمات ومکالمے احمد راہی نے لکھے تھے اور موسیقی خواجہ خورشید انور نے مرتب کی تھی۔ یہ ہر اعتبار سے ایک یادگار فلم ہے اور رہے گی۔ مگر ہندوؤں کا تعصب دیکھئے کہ انگلستان اور یورپ و امریکا میں انہوں نے یہ فلم دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کیونکہ یہ ایک پاکستانی فلم تھی۔ اسے آپ ان کی قوم پرستی قرار دیں یا تعصب کا نام دیں مگر ہماراتجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ بھارتی ہندو پاکستان کی فلم دیکھنا پسند ہی نہیں کرتے۔ ایک بار ہم لندن گئے اور اپنے ایک پاکستانی دوست کو بہت شرمندہ کیا کہ انہوں نے ’’ ہیر رانجھا‘‘ بھی نہیں دیکھی ہے۔ وہ ہمیں لے کر فورا! ویڈیو شاپ پر گئے۔ حسبِ معمول یہ ایک بھارتی ہندو کی دکان تھی۔ ہم نے پوچھا ’’ آپ کے پا س فلم ’’ ہیر رانجھا‘‘ ہے۔‘‘
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر496 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ آہوجی ‘‘ انہوں نے ایک ویڈیو نکال کر ہمارے حوالے کر دیا۔ ہم نے اس پر لگی ہوئی تصویریں اور تحریریں دیکھیں تو معلوم ہوا کہ وہ اردو کی ہیر رانجھاہے۔
ہم نے کہا ’’ ہمیں تو پنجابی کی فلم ’’ ہیررانجھا‘‘ کی ضرورت ہے جو پاکستان میں بنی ہے۔‘‘
’’ اچھا!‘‘ وہ حیران ہو کر بولا ’’ مجھے توخبر نہیں جی۔ اپنے پاس اس کا ویڈیو بھی ہے۔ ‘‘
ہم نے اردو کی ’’ ہیر رانجھا‘‘ انہیں واپس لوٹا دی حالانکہ دیکھنے کو بہت جی چاہا لیکن سوچا کہ جب بھارتی ہم سے اتنے الرجک ہیں تو ہمیں ان کی فلمیں دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر ہم نے دکان دار کو یہ ضرور بتا دیا کہ لالہ جی آپ نے یہ فلم نہ دیکھ کر اپنا بڑا نقصان کیا ہے۔ یہ تو پنجاب کی کلاسیک ہے۔‘‘
فلم ’’ گرم ہوا‘‘ کی کہانی اورم مکالمے بھی کیفی اعظمی صاحب نے ہی لکھے تھے۔ اس فلم کا موضوع تقسیم بند تھا جس میں بڑی غیر جانبداری کے ساتھ اس مسئلے کو پیش کیا گیا تھا لیکن بھارت میں ہندوؤں نے اس کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیا اور الزام لگایا کہ اس فلم میں پاکستان نوازی کی گئی ہے۔ مگر باشعور لوگوں نے اس فلم کو بہت پسند کیا اور سراہا۔ اس فلم کی کہانی کے مصنف کی حیثیت سے بھارتی حکومت نے انہیں قومی ایوارڈ دیا تھا۔ اس سال تو فلم فیئر ایوارڈ بھی اسی فلمی کو دیا گیا تھا۔
ان دونوں کے علاوہ کیفی اعظمی نے اور بھی کئی فلموں کی کہانیاں لکھی تھیں مگر جب بھارتی فلمی صنعت میں بے مقصدیت کا سیلاب آیا تو وہ رفتہ رفتہ فلمی صنعت سے کنارہ کش ہوگئے کیونکہ نہ تو فلموں میں کہانیاں باقی رہیں اور نہ ہی مقصدیت۔ ایسے میں گانوں کی سچویشنز کیسے بن سکتی ہیں۔ چنانچہ تک بندی اور بے تکی اچھل کود کا رواج ہوگیا۔
کیفی اعظمی کی بیٹی شبانہ اعظمی نے فن اور سیاست کی دنیا میں بہت نام پیدا کیاہے۔ وہ پارلیمنٹ کی رکن بھی رہیں اور ایک بے خوف سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی ہندو سماج کی خرابیوں کے خلاف بے خوفی سے آوازاٹھاتی رہی ہیں۔ شبانہ اعظمی نے کمرشل فلموں میں بھی بہت اچھی اداکاری کی لیکن انہوں نے زیادہ توجہ آرٹ فلموں پر مرکوز رکھی جن میں بہت کم معاوضہ ملتا ہے لیکن وہ بھی آخر کیفی اعظمی ہی کی بیٹی ہیں۔ پیسہ ان کے نزدیک بھی ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
ایک لطیفہ ہے کہ ایک با رہالی ووڈ کے ایک مشہور پروڈیوسر کے اعزاز میں بہت شاندار تقریب منعقد ہوئی اور انہیں انعام و اکرام سے نوازا گیا۔ انہیں انعام دین کے بعد اعلان کیا گیا کہ اب ایک ان سے بھی بڑے پروڈیوسر آپ کے سامنے آئیں گے۔
اسٹیج پر ایک موٹی ، بدشکل سی خاتون مسکراتی ہوئی نمودار ہوئیں تو سب بہت حیران ہوئے انہیں کوئی نہیں جانتا تھا۔
لوگوں نے پوچھا ’’ انہوں نے کون سا کارنامہ سرانجام دیا ہے؟‘‘
جو اب ملا ’’ انہوں نے اس عظیم پروڈیوسر کو پروڈیوس کیا ہے۔ یعنی ان کی والدہ ہیں اگر انہوں نے جنم نہ دیا ہوتا تو یہ عظیم پروڈیوسر کہاں ہوتے؟‘‘
شبانہ اعظمی کے بارے میں بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ دو بڑے بلکہ عظیم فنکاروں کی صاحب زادی ہیں۔ ان کی عظمت اپنی جگہ لیکن کیفی اعظمی اور ان کی بیگم تعریف کی مستحق ہیں جن کی تعلیم و تربیت کی بدولت ہی شبانہ اعظمی نے یہ مقام حاصل کیا ہے۔
کیفی اعظمی کا لکھا ہوا ایک نغمہ محمد رفیع نے بہت پرسوز انداز میں گایا تھا۔
یہ دنیا یہ محفل، میرے کام کی نہیں
کیفی اعظمی سے پہلے محمدرفیع بھی یہی کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگئے تھے اور اب کیفی اعظمی بھی چلے گئے یہ کہہ کر کہ یہ دنیا ، یہ محفل میرے کام کی نہیں۔ اس نغمے کو ایک لافانی نغمہ کیا جا سکتا ہے۔
کیفی اعظمی فلمی نغمات میں بھی جدت پیدا کر دیتے تھے اور آسان سی بات کو نئے انداز میں کہہ کر اسے ایک نیا رنگ دے دیا کرتے تھے مثلاً لتا منگیشکر کا گایا ہوا یہ نغمہ۔
ملونہ تم تو ہم گھبرائیں
ملو تو آنکھ چرائیں
ہم کیا ہوگیاہے؟
ایک فلمی گانے میں لطیف جذبات واحساسات کی ایسی نازک اور نفیس عکاسی کیفی اعظمی جیسے شاعر ہی کر سکتے ہیں۔
کیفی اعظمی عمر بھر محنت کرتے رہے لیکن کافی عرصہ پہلے ان کا فالج کا حملہ ہو اتھا اور وہ کافی عرصے تک کافی عرصہ پہلے ان پر فالج کا حملہ ہوا تھا اور وہ کافی عرصے تک بالکل معذور ہو کر رہ گئے تھے۔ اس کے بعدوہ کچھ سنبھل تو گئے لیکن بیماری نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ عمر کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں نے بھی انہیں گھیر لیا جن میں اختلاجِ قلب کی بیماری بھی شامل تھی۔
زندگی کے کے آخری ایام میں کیفی صاحب ادبی اور سیاسی سرگرمیوں سے بہت دور ہوگئے تھے اور محض فلمی مصروفیات تک محدود ہوچکے تھے لیکن اس کے باوجود ادب اور شاعری ہی ان کی شناخت رہیں۔ ان کی نظموں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں سرمایہ ، آخر شب ، آوارہ ، سجدے اور جھنکار شامل ہیں۔ انہوں نے غزلوں کے مقابلے میں زیادہ تر نظمیں ہی لکھی ہیں کیونکہ عموماً ترقی پسند شاعر غزل کو فرسودہ اور روحانی روایات کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا کرتے تھے۔ کیفی صاحب کی بعض نظموں نے بہت شہرت اور پذیرائی حاصل کی۔ ان کی نظمیں موضوعاتی اور طویل ہوتی تھیں جیسا کہ ان کے عنوانات ہی سے ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً ایک نظم کا عنوان ہے تلنگانہ۔ جنوبی بھارت میں تلنگانہ کے مقام پر عرصہ دراز تک اشتراکی اور انقلابی تحریک چلتی رہی جس نے بغاوت کا رنگ اختیار کر لیا تھا۔ یہ نظم اسی موضوع کو اجاگر کرتی ہے۔ ان کی ایک نظم کا عنوان ’’ ماسکو‘‘ ہے۔ حسن اور ابن مریم بھی ان کی مشہور نظمیں ہیں۔ بھارتی حکومت کی وضع داری کہئے یا دنیاداری اور ظاہر داری کہ وہ اردو کے ممتاز ادیبوں اور شاعروں کی کسی امتیاز کے بغیر اعزاز دیتی رہی ہے۔ بھارت کے تقریباً سبھی نامور اردو ادیب اور شاعر قومی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔
کیفی اعظمی کو ان کی نظریاتی وفاداری کے باوجود بھارتی حکومت نے ’’ پدم شری‘‘ کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا تھا۔ کاش پاکستان میں جوش ملیح آبادی اور فیض احمد فیض جیسے تخلیق کاروں کو بھی اعلیٰ اعزازات سے نوازا جاتا۔ ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہی رہا ہے۔ مذکورہ بالا دونوں شعرا کو ہی دیکھ لیجئے۔ اردو ادب میں ان کی مثال اب کوئی نہ ہوگا لیکن ہماری حکومتوں نے انہیں معتوب و مقمو ہی گھبرایا۔ اعزاز دینا تو دور کی بات ہے، سرکاری ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے ان کے طویل اور مفصل انٹرویوز تک نہیں لیے گئے۔ سوچئے تو یہ نقصان کس کا ہے؟ ظاہر ہے کہ ملک اور ادب کا ، معاشرے کا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شبانہ اعظمی کیفی اعظمی کی اکلوتی بیٹی ہیں حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ وہ ان کی بہت لاڈلی بیٹی ضرور ہیں اور انہوں نے اپنے والد کا نام روشن کرنے میں بھی بہت بڑا حصہ لیا ہے۔ لیکن کیفی اعظمی کی دو اولادیں ہیں۔ ایک شبانہ اعظمی اور دوسرا ان کا بیٹا جسے عموماً پیارے سے ’’ بابا‘‘ کہا جاتا ہوگا۔ بڑے ہو کر انہوں نے یہی نام اختیار کرلیا۔ وہ بہت اچھے کیمرا مین ہیں۔
وقت نے کیا ، کیا حسیں ستم
ہم رہے نہ ہم ، تم رہے نہ تم
***
تم جو مل گئے ہو تو یہ لگتا ہے
کہ جہاں مل گیا ، کہ جہاں مل گیا
***
جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں
راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے
***
جیت ہی لیں گے بازی ہم تم کھیل ادھورا چھوٹے نہ
پیار کا بندھن ، جنم کا بندھن ، جنم کا بندھن ٹوٹے نہ
***
دو دل ٹوٹے ، دو دل ہارے
دنیا والو صادقے تمہارے
***
آج سوچا تو آنسو بھر آئے
مدتیں ہوگئیں مسکرائے
***
بہارو، میرا جیون بھی سنوارو
انہوں نے بے شمار ، بہت خوبصورت نغمات لکھے ہیں جن میں خیال کی نزاکت ، احساس کی شدت ، جذبات کی حدت اور طرز بیان کی ندرت قابل ذکر ہے۔
تقدیر کی لکیریں کیفی اعظمی بھی انسانی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ کیفی اعظمی جیسا شخص ، جس نے اپنا تن من دھن سب کچھ کمیونسٹ تحریک اور سوشلزم کے لیے وقف کر دیا ہے، اس کو ایک دن عصمت چغتائی اور شاہد لطیف زبردستی کھینچ کر نغمہ نگار کی حیثیت سے فلمی دنیا میں لے جائیں گے اور اس فلم کے گانے ایسے مقبول ہوں گے کہ پھر وہ فلم سازوں کی ضرورت بن جائیں گے۔ قسمت کے اتار چڑھاؤ کا نمونہ دیکھنا ہو تو کیفی اعظمی ہی کو دیکھ لیجئے۔ ایک مقبول گیت نگار بننے کے بعد وہ پھر فلمی دنیاسے دور ہوگئے تھے بلکہ فلم والوں نے انہیں فراموش ہی کر دیا تھا۔ اچانک ایک دن قدرت چیتن آنند کے دل میں یہ خیال پیدا کرتی ہے کہ تم فلم ’’ حقیقت‘‘ بناؤ اور اس کے لیے کیفی اعظمی سے گیت لکھواؤ۔
(جاری ہے ۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)