پاکستان اور بھارت کے درمیان ریل گاڑیوں کا سفر

پاکستان اور بھارت کے درمیان ریل گاڑیوں کا سفر
پاکستان اور بھارت کے درمیان ریل گاڑیوں کا سفر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بھارت نے ایک جست میں مقبوضہ کشمیر کی عالمی طور پر منظور شدہ حیثیت ہی تبدیل کر دی ہے۔ کشمیر میں گزشتہ کئی روز سے عید کے موقع پر بھی کرفیو لگا کر عوام کا احتجاج روکنے کا ناکام کوشش کی گئی ہے،لیکن پاکستان کی سفارتی سرگرمیوں کی وجہ سے بین الاقوامی برادری نے نوٹس تو لیا ہے کہ ابھی تک کوئی موثر کارروائی نہیں کی گئی ہے، نہ ہی بھارت کے کان پر جوں رینگی ہے۔ بھارت کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔ توسیع پسندانہ عزائم ہی نے اسے حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ ریاست پر قبضہ کرنے پر مجبور کیا تھا۔ یہ دونوں ریاستیں پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتی تھیں۔ کشمیر کے بارے میں استصواب رائے کے لئے تو اقوام متحدہ کی متفقہ قرار داد منظور کی گئی تھی جس پر بھارت نے عمل کیا نہ ہی اقوام متحدہ عمل کرا سکا۔ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے ہر موقع پر ٹالنے کی کوشش کی۔ اقوام متحدہ ایک ایسا ادارہ ثابت ہوا ہے جو سلگتے ہوئے مسائل کو حل نہیں کرا پاتا ہے۔ بھارت کی روش ستر سالوں سے ایک جیسی ہے اور اب تو اس نے تمام اصولوں اور ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر کشمیر کی حیثیت ہی تبدیل کر دی ہے۔


اس حیثیت میں تبدیلی کے بعد پاکستان نے دنیا بھر کو اپنے سخت موقف سے آگاہ کیا۔ معاملہ کو او آئی سی ممالک اور سلامتی کونسل کے ممالک کے علم میں لایا گیا۔ چین کے ساتھ زیر تنازعہ لداخ کو بھی اپنا حصہ قرار دیا ہے، جس پر چین نے بھی سخت الفاظ میں بھارت کو متنبہ کرتے ہوئے احتجاج کیا ہے۔ پاکستان نے سلامتی کونسل کے ارکان کو بھی معاملہ کی حساسیت سے آگاہ کیا ہے۔ پاکستان کی کوششوں کے بعد سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے، جس کی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق بھارت بہت مخالفت کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اضطراب کی کیفیت میں ہے اور اجلاس کی طلبی کو عالمی سطح پر بھارت کی بڑی سفارتی شکست قرار دیا جا رہا ہے۔ کشمیر پر بھارتی قبضے کا معاملہ 50سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تک پہنچ ہی گیا۔بھارت تو سلامتی کونسل کی رکنیت حاصل کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف رہا ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک کو کسی بھی قرار داد کو ویٹو کرنے کا حق حاصل ہے۔ ایسی صورت میں جب بھارت کشمیر اور لداخ کے معاملہ پر اُلجھا ہوا ہے بھارت کو سلامتی کونسل کی رکنیت دینا دُنیا بھر کے لئے بڑا سوال ہو گا۔ بھارت پاکستان کے خلاف ایک بار پھر 27فروری والی کارروائی کرنا چاہتا ہے۔اسے حکومت پاکستان کا جذبہ خیر سگالی یاد نہیں ہے کہ پاکستان نے اس کے پائلٹ کو واپس کر دیا تھا، حا لانکہ بھارت کی یہ کارروائی تمام بین الاقوامی ضابطوں کے خلاف تھی۔


پاکستان نے ہر سفارتی سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے، لیکن پاکستان کے وزیر ریلوے نے بھارت اور پاکستان نے درمیاں چلنے والی ریل گاڑیوں کو ہی بند کر دیا ہے۔ وزیر ریلوے نے دوسرے روز سندھ کے علاقے سے بھارت جانے والی ریل گاڑٰ ی بھی بند کر دی۔ وزیر مواصلات نے بھارت جانے والی بس سروس کو بند کر دیا۔ لاہور میں واہگہ کے راستہ جانے والی ریل گاڑی کی بندش کو ایک وفاقی وزیر فواد چودھری نے جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ قرار دیا، جس پر شیخ رشید چراغ پا ہوئے اور انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جب تک وہ وزیر ریلوے ہیں، ریل گاڑیوں کا سفر بحال نہیں ہو گا۔ واہگہ سے پاکستان آنے والوں میں سکھوں کے علاوہ دیگر شہریوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے اس طرح سندھ سے تھر ایکسپریس کے ذریعے جانے والوں میں ہندو اور مسلمان سفر کرتے ہیں۔ سکھ اپنی زیارت کے لئے آتے ہیں تو دیگر لوگ اپنے رشتہ داروں سے ملاقاتوں کے لئے جاتے ہیں۔ کیا آنے جانے پر اس قدر جلد بازی میں پابندی لگانے سے دونوں طرف کے عوام کو تکلیف نہیں پہنچے گی۔

حکومت کو غور کرنا چاہئے، لیکن اب ریل گاڑیوں کو بند کر دیا گیا ہے تو کوئی نہیں کھولے گا۔ البتہ کرتارپور راہداری کھولنے کے لئے اقدامات بدستور جاری ہیں،کیا یہ دونوں اقدامات باہمی تضاد کا شکار نہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیاں تجارتی سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر تجارت نے کہا ہے کہ وہ غور کر رہے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔ وہ جلد بازی میں فیصلہ کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ تجارت کی وجہ سے دونوں ممالک کو معاشی فائدہ پہنچتا ہے۔اسے یکایک بند کرنے سے نقصان کے علاوہ کچھ اور حاصل ہونے کو کوئی امکان نہیں ہوتا ہے۔ سفارتی میدان میں بھی احتجاج کرتے ہوئے بھارت کے سفیر کو واپس کر دیا گیا اور پاکستانی سفیر کو بھارت واپسی سے روک لیا گیا ہے۔ماضی میں جب بھارت کی وجہ سے سفارتی تعلقات منقطع ہوئے ہیں انہیں بحال کرنے میں خاصا وقت لگا تھا۔بھارت اور پاکستان پڑوسی ہیں۔ بھارت کو کشمیر کے معاملہ کو بین الاقوامی قراردادوں کی روشنی میں حل کر کے دونوں ممالک کے عوام کو جیو اور جینے دو پر عمل پیرا ہونے دینا چاہئے۔


بھارت کے ایک غیر آئینی، غیر قانونی اور دنیا بھر کو منہ چڑھانے والے فیصلہ نے دونوں ممالک کے درمیاں ڈھیلے ڈھالے سفارتی تعلقات کو بھی کم تر سطح پر پہنچا دیا ہے۔ بھارت کی منشاء ہی یہ ہی ہوتی ہے کہ جب وہ اپنے عوام پر ظلم کرے تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ کشمیر اور بھارت کے دیگر شہروں میں مسلمانوں کے ساتھ انتہاء پسند عناصر جو کچھ کر رہے ہیں اور جس تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں، اس کے ردعمل کی صورت میں بھارت میں اندرونی امن تو قائم ہونے سے رہا، لیکن وہ بیرونی امن بھی متا ثر کرنا چاہتا ہے۔فروری کے مہینے میں اس نے پاکستان کی فضائی خلاف ورزی کرتے ہوئے دو جنگی جہاز بھیجے تھے،ان کو گرائے جانے کے بعد بھارت کو دُنیا بھر میں حزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بھارتی عزائم کے پیش نظر بھارت سے ہر توقع رکھنا چاہئے وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ہاتھوں مجبور ہے۔

مزید :

رائے -کالم -