امریکہ، مودی اور ہندوستان کے انتخابات(3)
امبیدکر نے جو خود دلت تھے مسلمانوں کی طرح دلتوں کے لئے بھی علیحدہ انتخابات کے لئے آوازا ٹھائی تھی جس پر انہیں جان و مال کی دھمکیوں سمیت ہر قسم کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ سینہ تان کر ڈٹے رہے، لیکن جب مہاتما گاندھی نے ان کے مطالبے کے خلاف اس وقت بھوک ہڑتال کردی جب وہ جیل میں تھے اور انہیں گاندھی سے ملاقات کے لئے جیل لے جایا گیا تو بقول پیری اینڈرسن وہ اس بلیک میلنگ کے سامنے ہار گئے۔ گاندھی کا موقف تھا کہ دلتوں کے بغیر ہندو مذہب نامکمل رہ جائے گا جبکہ اینڈرسن کی رائے میں حقیقت یہ تھی کہ اگر دلتوں کوہندوؤں سے الگ اکائی تسلیم کر لیا جاتا تو ذات پات کے نظام کو جیسا کہ اس کے قائد کہتے رہے ہیں امتیازی سلوک کا گھناؤنا نظام تسلیم کر لیا جاتا جس میں معاشرے کے نچلے طبقے سے غیر انسانی سلوک کیا جاتا اور کیونکہ ہندو مذہب کی بنیاد یہی یہ نظام ہے اس لئے وہ بھی قابل مذمت ٹھہرتا۔ اندرا گاندھی اگرچہ چھوت چھات کے خلاف تھیں لیکن انہوں نے دلتوں کی بہتری کے لئے خانہ پری کے علاوہ کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا۔ مہاتما گاندھی البتہ ہندوؤں کے امیر طبقے کا بہت لحاظ کرتے تھے جن میں سے ایک بڑے سرمایہ داربرلاکے کہنے پر انہوں نے بنگالی لیڈر سبھاش چندربوس کو جو کانگریس کی نوجوانوں کی تنظیم کا لیڈر تھا اور مسلمان کسانوں کی پارٹی سے اتحاد کا خواہاں تھا روک دیا تھا۔
سبھاش چندر بوس اپنی دیانتداری اور بہادری کی بناپر پارٹی میں بہت مقبول ہوگیا تھا اور اسی مقبولیت نے اسے پارٹی کا صدر بنا دیا تھا، بلکہ اس مقبولیت کی انتہا یہ تھی کہ اگلے سال صدر کے لئے پارٹی کے انتخابات میں اس نے گاندھی کے حمایت یافتہ امیدوار کو بھی ہرا دیا۔ یہ غیر متوقع حملہ گاندھی کو جو اپنی مرضی کے آگے جمہوریت کو کوئی جگہ دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ غضبناک کرنے کے لئے کافی تھا۔ انہوں نے نہ صرف پارٹی کے اندر بوس کا تختہ الٹ کر اسے ناکام بنایا بلکہ اسے پارٹی سے ہی نکال دیا۔ جس کے بعد برطانوی حکومت اس کے درپے ہوگئی، لیکن وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور مصر اور جرمنی کے راستے ہوتا ہوا سنگاپور پہنچا۔ جہاں اس نے جاپان کے اتحادی کے طور پر 60ہزار جنگی قیدیوں پر مشتمل ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لئے نیشنل لبریشن آرمی کے نام سے فوج تیار کی، جس میں ہندو سکھ مسلمان سبھی شامل تھے۔ لبریش آرمی کو قابل ذکر کامیابیاں ملیں اور اس نے برما کے علاوہ ہندوستان کی ریاست منی پور پر قبضہ بھی کرلیا تھا لیکن امریکہ کے جاپان پر ایٹمی حملے کے بعد جب جاپان نے ہتھیار ڈال دیئے تو لبریشن آرمی بھی ختم کردی گئی اور سبھاش چندر بوس روس جانے کی کوشش میں فضائی حادثے کا شکار ہوگئے۔
ان کی لبریشن آرمی عوام میں اس قدر مقبول تھی کہ اس کے کسی بھی سپاہی یا افسر پر برطانوی حکومت کو مقدمہ چلانے کی ہمت نہیں ہوسکی۔ دلتوں کی حمایت میں چھوت چھات کی مخالفت کی طرح مہاتما گاندھی مسلمانوں کے لئے بھی نیک خیالات کے حامل تھے جس کا اظہار انہوں نے تحریک خلافت کے وقت کیا تھا لیکن عملی طور پر ان کے ہندو مذہب کی بنیاد پر سیاسی فلسفے میں مسلمانوں کی گنجائش نہیں تھی۔ اس لحاظ سے یہ بہت بڑا تضاد تھا جو اس وقت ان کی موت کا سبب بنا۔ جب انہوں نے تقسیم کے بعد پاکستان کے حصے کی رقم دلانے کے لئے جوان کے شاگرد نہرو کی حکومت نے روک لی تھی۔ بھوک ہڑتال کی ہوئی تھی۔ انہیں ایک انتہا پسند ہندو وکیل ناتھورام گوڈسے نے جو آر ایس ایس کا رکن رہ چکا تھا اور اس لحاظ سے گاندھی سے ایک قدم آگے بڑھ کر ہندو مت کا پرچارک تھا ان کے سینے میں تین گولیاں مار کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ گوڈ سے کو اس بات پر غصہ تھا مہاتما گاندھی اس کے خیال میں مسلمانوں کا پیر بننے کی کوشش کر رہے تھے۔
پاکستان کو انصاف دلانے کی کوشش میں مہاتما گاندھی کو 70سال قبل اگر جان سے ہاتھ دھونے پڑے تھے تو آج بھی ہندوستان میں مسلمانوں یا پاکستان کے لئے نرم گوشتہ رکھنے والوں کی سز اس سے کم نہیں۔ اس کی تازہ مثال بی جے پی کے بانی لیڈر ایل کے ایڈوانی ہیں جنہوں نے بابری مسجد کے حوالے سے شہرت حاصل کی تھی اور جو پاکستان بننے سے قبل زمانہ طالب علمی کے دوران کراچی میں آر ایس ایس کے لئے کام کرتے رہے تھے۔ انہی ایڈوانی سے ہندوستان کے نائب وزیراعظم کے طور پر یہ غلطی سرزد ہوگئی کہ 2008ء میں پاکستان آمد پر جب وہ قائداعظم کے مقبرے پر گئے تو انہوں نے مہمانوں کی کتاب میں قائداعظم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ لکھ دیا کہ ”قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کے حامی ایک عظیم سیکولر لیڈر تھے جنہوں نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا“ یہ اتنا بڑا جرم تھا کہ اس کی پاداش میں وہ راندہ درگاہ ہوگئے اور حالیہ انتخابات میں پارٹی نے انہیں ٹکٹ دینے کے قابل بھی نہیں سمجھا۔
ایسا ہی ایک جرم پارٹی کے ایک اور بانی رہنما جسونت سنگھ سے بھی ہوا جو بی جے پی کی حکومت میں وزیر دفاع، وزیر خزانہ اور وزیر امور خارجہ جیسے کلیدی عہدوں پر فائز رہے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی کتاب کی صورت میں سرزد ہوگیا۔ انہیں بھی پارٹی نے کونے میں بٹھا دیا اور جب انہوں نے آزادانہ طورپر انتخاب لڑنے کی کوشش کی تو انہیں پارٹی سے ہی نکال دیا گیا۔ ان مثالوں سے یہ معمہ سمجھنے میں بھی آسانی ہو جاتی ہے کہ وہ کون سے عناصر تھے جنہوں نے واجپائی کو عین اس وقت روک دیا جب وہ کشمیر کے معاملے میں مشرف کے ساتھ سمجھوتے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ہندو سماج کی یہی تنگ دلی اور تنگ نظری تھی جو 70سال قبل قیام پاکستان کا باعث بنی اور جو آج بھی نہ تو مسلمانوں کو برابر کا شہری سمجھنے کے لئے تیار ہے اور نہ پاکستان کو برابر کا آزاد اور خود مختار ملک۔ اس تنگ دلی اور تنگ نظری کی گواہی پاکستان میں ہندوستان کے پہلے ہائی کمشنر سری پرکاس نے بھی، جو کانگریس کے عہدیدار بھی رہ چکے تھے، اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں دی ہے جس کے مطابق کانگریس قیادت کے اسی رویئے کے باعث قیام پاکستان کی راہ ہموار ہوئی۔
اسی رویئے کا مظاہرہ آج کل بی جے پی کی قیادت کر رہی ہے۔ جس کی گواہی کے لئے کتاب یا کسی اور حوالے کی ضرورت نہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ کے ایک سو سال سے زائد عرصے پر محیط ان واقعات کی روشنی میں یہی نتیجہ اخذ کی جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی سیاسی قیادت کی سوچ چاہے وہ کانگریس کی شکل میں ہو یا بی جے پی کی شکل میں ہندو مذہب کی بنیاد پر ایک ہی رنگ کے مختلف شیڈ ہیں کوئی ہلکا ہے تو کوئی گہرا۔ اور یہ کہ ہندو اکثریت سے کسی مہربانی کی توقع کئے بغیر مسلمانوں کو اپنے تحفظ کے لئے خود کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ کے وزیر دفاع کا حال ہی میں ایک موقع پر یہ بیان کہ ”جنگ جیتنے کی صلاحیت ہی جنگ کے امکان کو رد کرنے کا سب سے بڑا ضامن ہے، گویا پاکستان کی ترجمانی کرتا نظر آتا ہے۔ جس کی سیاسی قیادت نے ایٹمی صلاحیت کے حصول سے خودکو ناقابل تسخیر بنا لیا۔ سیاسی قیادت کا اس سے بھی بڑا کارنامہ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کا حصول تھا جو برصغیر کے مسلمانوں کی بقا کا ذریعہ بنکر وجود میں آیا۔ اگرچہ اس اہتمام کے باوجود ہندوستان کے 20کروڑ مسلمان ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں لیکن اگر یہ انتظام نہ ہوتا تو ممکن ہے برصغیر میں مسلمانوں کی تعداد 60کروڑ تک نہ پہنچ پاتی بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت کے چند کروڑ مسلمانوں کا وہی حشر ہوتا جو سپین میں 700سال کی حکومت کے بعد مسلمانوں کا ہوا تھا۔ (جاری ہے)