کشمیر بنے گا پاکستان؟
14اگست کو قوم نے 72واں یومِ آزادی منایا اور ساتھ ہی کشمیر کی صورتِ حال کے پیش نظر یومِ یک جہتی ء کشمیر بھی منایا۔جہاں پاکستان کے جھنڈے لہرائے گئے وہاں ساتھ ہی آزاد کشمیر کے پرچم بھی بلند کئے گئے۔وزیراعظم نے سارا دن آزاد کشمیر میں گزارا اور وہاں کی اسمبلی سے 36،37 منٹ طویل خطاب کیا۔ اس کے علاوہ حریت رہنماؤں اور دیگر آزادی خواہ تحریکوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ یہ سارا احوال آپ میڈیا پر دیکھ اور سن چکے ہیں۔اسی روز اسلام آباد میں ایک بڑی ریلی نکالی گئی جس سے دوسروں کے علاوہ وزیرخارجہ نے بھی خطاب کیا جو بظاہر خاصا اثر انگیز معلوم ہوتا تھا لیکن ان کی تقریر کی پِچ (Pitch) کبھی ابھرتی اور کبھی ڈوبتی تھی۔ ان کی آواز کی لَے کا یہ نشیب و فراز اتنا ڈرامائی تھا کہ بعض اوقات مجھے یوں محسوس ہوا کہ ان کے الفاظ دل کی گہرائیوں سے نہیں پھوٹ رہے بلکہ صرف نوکِ زبان سے پھسل پھسل کرباہر آ رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کی سنجیدگی اور سنگینی اس ڈرامائی طرزِ گفتار کی متحمل نہ تھی اس لئے میں شاہ محمود صاحب کی تقریر سنتا رہا اور آرزو مند رہا کہ کاش وہ یہ صدائی تصنّع اختیار نہ کرتے۔ آخر میں انہوں نے نعرہ لگایا ”کشمیر بنے کا پاکستان“…… ان سے پہلے پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے بھی دورانِ تقاریر یہی نعرہ لگایا اور اس میں مجمع کو بھی شرکت کی دعوت دی جو بظاہر ایک مستحسن اقدام تھا لیکن یہ نعرہ تو ہم سکول کے زمانے سے سنتے چلے آئے ہیں۔ ہمارے پرائمری سکول کی دیواروں پر یہ چار نعرے درج ہوا کرتے تھے:
٭ قائداعظم زندہ باد
٭ پاکستان زندہ باد،
٭ پاکستان مطلب کیا لا الہ الا اللہ
٭کشمیر بنے گا پاکستان
لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے…… بجائے اس کے کہ کشمیر پاکستان بنتا، ہم نے آدھا پاکستان ہی ہاتھ سے گنوا دیا!……
اب پاکستان نے اپنی پیدائش سے 72برس بعد ایک نئی انگڑائی لی ہے جس کی اصل روح ہمارے داخل سے نہیں، خارج سے آتی معلوم ہوتی ہے۔ اگر انڈیا اپنا آئین مسخ نہ کرتا تو شائد اگلے 72برسوں میں بھی کشمیر، پاکستان نہ بن سکتا۔ اب یکایک انڈیا نے کشمیر کے سٹیٹس کو تبدیل کرکے ساکن جھیل میں پتھر پھینک دیا ہے اور پاکستان کے طول و عرض میں گویا آگ لگا دی ہے۔ حکومت کو مبارکباد کہ انڈیا نے خود مسئلہ کشمیر کے حل کے آثار پیدا کر دیئے ہیں …… لیکن اس سے پہلے کہ ہم مسئلہ کشمیر لے کر سیکیورٹی کونسل میں جائیں،ہمیں اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے کہ اس نعرے (کشمیر بنے گا پاکستان) کو حقیقت میں ڈھالنے کی قیمت کیا ہے، کیا قوم اس کے لئے تیار ہے، کیا ہم اس نعرے کے الفاظ کو حقیقی پیکر کا جامہ پہنا سکتے ہیں اور کیا ہماری موجودہ سیاسی، معاشی اور عسکری صورتِ حال اس کی اجازت دیتی ہے؟…… اگر اجازت نہیں دیتی تو ہمیں کشمیر کو پاکستان بنانے کے لئے تخت یا تختہ کا کھیل کھیلنے سے گریز کرنا چاہیے اور اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے جب حالات ”سازگار“ ہو جائیں۔
ہم پاکستانی ابھی تک تو یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ: ”مسئلہ کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں ہے“ لیکن کیا یہ دعوے کرنے اور یہ جملہ ”گھڑنے“ سے پہلے ہمارے کسی دانشور اور سیاستدان نے سوچا کہ ہم غلط کہہ رہے ہیں؟ مسئلہ کشمیر کا حل میرے نزدیک صرف اور صرف ”فوجی حل“ ہے۔ یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں جانے، عالمی ضمیر کو بیدار کرنے یا نعرے لگانے سے حل نہیں ہو گا۔ میں (1970ء کے عشرے میں) اپنے گاؤں کی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے جاتا تو امام مسجد بڑے خشوع و خضوع سے پنجابی زبان میں یہ دعا بھی مانگتا: ”یا اللہ ہندوستان دے کافراں دا بیڑا غرق کر…… پروردگار! اندرا گاندھی نوں اپنے کول بلوا…… تے کشمیرنوں پاکستان بنا“۔
میں اور دوسرے نمازی بڑے احترام اور صدقِ دل سے ”آمین، آمین“ کہتے اور پھر بھاری دل کے ساتھ گھروں کو واپس چلے آتے۔ پھر آخر دسمبر 1971ء آ گیا اور حضرت علامہ نے اپنے ایک شعر میں اس امام مسجد کے بارے میں جو حقیقت بیان کی تھی وہ ہم سب نے دیکھ لی…… شعر یہ تھا:
کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی
اے پیرِ حرم! تیری مناجاتِ سحر کیا؟
یہی سوال کسی طالبان سے پوچھ کر دیکھئے کہ کیا افغانستان کے مسئلے کا حل مذاکرات کی میزپر جانے میں ہے؟…… تو وہ آپ کو بتائے گا کہ مسئلہ افغانستان کا حل فوجی تھا یا نہیں تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ طالبان نے ازخود کبھی مذاکرات کی خواہش نہیں کی۔ یہ خواہش اور پیشکش تو دنیا کی اس واحد سپرپاور کو کرنی پڑی جس کے عمائدین اور قائدین یہ رٹ لگایا کرتے تھے کہ ”دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں ہو سکتے“…… لیکن 18برس بعد اب جا کر ان کو معلوم ہوا کہ اس مسئلے کا حل مذاکرات ہیں، طالبان سے پنگا لینا نہیں ……
یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہوا جب امریکہ (اور اس کی ناٹو افواج) کی کمر ٹوٹ گئی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ طالبان آج کل دوحہ میں مذاکرات بھی کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی افغانستان کے طول و عرض میں ان کی طرف سے روزانہ خونریز معرکے بھی بپا ہو رہے ہیں۔ طالبان کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ جو امریکہ آج مذاکرات کی میز تک آ گیا ہے اس کو اپنے ملک سے نکالنے کے لئے ”خاک و خون“ کی ضرورت ہے۔ چنانچہ جو حضرات یہ فرماتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں، ان کو جان لینا چاہیے کہ اس مسئلے کا کوئی حل اگر ہے تو صرف اور صرف فوجی ہے۔
تاہم ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے نعرے بھی لگانے چاہیں۔ یہ اس لئے ضروری ہیں کہ قوم کے خوابیدہ ضمیر کو بیدار کیا جائے اور اس کو جنگ کی خوں آشامیوں سے آگاہ کیا جائے۔ ذرا غزواتِ رسول اللہ ﷺ کو یاد کیجئے۔ بدر، احد، خندق، موتہ، خیبر، طائف کو یاد کیجئے اور پھر ’فتحِ مکہ‘ کو بھی یاد کیجئے۔ کیا مکہ بغیر لڑے، مسلمانوں کی جھولی میں آن گرا تھا؟ کیا جنگ کے علاوہ کوئی اور حل بھی کفر و اسلام کے مابین ہونے والی ستیزہ کاری میں موجود تھا؟…… اگر نہیں تھا تو قوم کو کشمیر کاز کے لئے تیار ضرور کیجئے لیکن اس کو یہ بھی یاد دلایئے کہ آزادی کے ”جدوجہد“ کا مطلب کیا ہے۔ اب تک کشمیر میں جو کچھ ہوتا رہا ہے، وہ یک طرفہ تھا۔ نہتے سویلین شہری، وردی پوش اور تربیت یافتہ مسلح بھارتی فوجیوں سے کیسے دوبدو ہو سکتے ہیں؟ کشمیر کے قبرستانوں میں ایک لاکھ کشمیری شہداء دفن ہیں لیکن جب تک ایک لاکھ ہندو فوجی، شمشانوں میں نہیں بھیجے جائیں گے، کشمیر کو پاکستان نہیں بنایا جا سکے گا…… یہ باتیں کالموں میں لکھنے کی نہیں۔ کشمیریوں نے اب تک دفاعی حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ انہیں مسلح کرنے، جنگ کے لئے تیار کرنے اور لڑ کر شہید ہو جانے کی ترغیب و تحریص دلانے کی ضرورت ہے۔ مودی نے جو 30ہزار نئے فوجی کشمیر میں داخل کئے ہیں،وہ RSS، بجرنگ دَل اور بی جے پی کے غنڈے ہیں جن کو یہ مشن سونپا گیا ہے کہ وہ ایک کروڑ نہتے کشمیریوں کے گھروں میں داخل ہوں اور سربیا والی نسلی صفائی (Ethnic Cleansing)شروع کر دیں۔
یاد رکھئے کشمیر ہمارے ان نعروں سے آزاد نہیں ہو گا اور نہ ہی پاکستان بنے گا۔ دوسری طرف ہم پاکستان کو افغانستان تو نہیں بنا سکتے۔ لیکن طالبانوں والا جذب و جنوں تو قوم میں پیدا کر سکتے ہیں۔اس لئے حکومت جو کچھ کر رہی ہے، وہ بالکل درست کر رہی ہے۔ یہ اقدامات مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اساسی اور ابتدائی نوعیت کے ہیں۔ انڈیا اگر کشمیر میں اپنی سینا داخل کرکے نچنت ہو کر بیٹھ گیا ہے تو اس کو کشمیری حریت پسندوں کی طرف سے کچوکے لگانے کی ضرورت ہے۔ یاد کیجئے انڈین آرمی، سری لنکا میں بھی گئی تھی لیکن راجیو گاندھی کے ساتھ جو سلوک سری لنکن نے کیا، اس کو بھی یاد کیجئے۔ اگر اقوامِ متحدہ، کوریا میں (1950-53ء میں) عالمی فوج بھیج سکتی ہے تو کشمیر میں کیوں نہیں؟ اور عراق، افغانستان اور لیبیا میں ناٹو فورسز جا سکتی ہیں تو کشمیر میں کیوں نہیں؟ لیکن وہ تب جائیں گی جب ان کا اپنا مفاد خطرے میں ہو گا، جب ان کو یقین آ جائے گا کہ جوہری پاکستان دنیا کی بڑی طاقتوں کو نیو کلیئر بلیک میل نہیں کر رہا اور اس کے 22کروڑ عوام واقعی مرنے مارنے کے لئے تیار ہیں۔ تب یہ جنگ کشمیر کی جنگ نہیں ہو گی، پاکستان کی جنگ ہو گی۔یہ بھی یاد کیجئے کہ ویت نامیوں نے اپنے ہاں سے امریکیوں کو کیسے نکالا، افغانستان نے پہلے روسیوں کو اور پھر امریکیوں کو اپنے کوہ و دمن سے کیسے نکالا، اس کا ادراک ہونا چاہیے۔ ہمارے ہمسائے میں ایران کو دیکھئے۔ یہ کریڈٹ ایران کی مذہبی قیادت کو جاتا ہے کہ اس نے کربلا دوم کی تیاریاں کر رکھی ہیں۔ پاکستان کو ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔ سیکیورٹی کونسل میں ضرور جائیں لیکن جب تک اس کونسل کے پانچوں مستقل اراکین کو اپنی بقاء کا خطرہ لاحق نہیں ہو گا تب تک کوئی قرارداد کشمیر کے حق میں اور انڈیا کے خلاف پاس نہیں ہو سکے گی۔ پاکستان کو یہ مقام حاصل کرنے کے لئے ”فنا اور بقا“ میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔
میری نسل جو ستمبر 1965ء کی جنگ میں نو عمر تھی اس کو یاد ہو گا کہ ستمبر 1965ء کے اولین ایام میں قوم جلسے جلوس نہیں نکالا کرتی تھی، نہ ریلیوں کا رخ کرتی تھی، نہ بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر یوم سیاہ مناتی تھی(جیسا کہ ہم نے کل منایا ہے) ہماری نسل کے نوجوانوں کے لئے یہ اقدامات فضول اور مجہول (Passive) تھے۔ اس وقت نوجوانانِ قوم، فعال (Active) اقدامات اٹھانے کے عادی بنائے گئے تھے…… سرِشام سارا ملک بلیک آؤٹ کی زد میں ہوتا تھا، روشنی کی کوئی کرن رات بھر کسی بھی عمارات سے باہر نہیں جھانکتی تھی، ہر گھر کے سامنے (یا آس پاس) خندقیں کھود لی گئی تھیں، سکولوں میں فرسٹ ایڈ کے کورسز چلانے شروع کر دیئے گئے تھے، دشمن کی بمباری سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر سکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے لگی تھیں۔ اس 17روزہ جنگ میں قوم میں قتل، چوری چکاری، کرپشن اور بددیانتی سے نفرت اور حقارت کا کلچر عام ہو گیا تھا۔ دفاعی فنڈ کے ڈھیر لگ گئے تھے …… اور یہ سارا ”لاؤ لشکر“ کنونشل وار کے لئے بروئے کار لایا گیا تھا۔ آج دیکھئے کیا اس قسم کی کوئی سرگرمی آپ کو کہیں نظر آتی ہے؟…… اگر نہیں تو کیوں نہیں؟…… پورا یورپ، آدھا ایشیا اور چوتھائی افریقہ 6 برس تک (1939ء تا 1945ء) دوسری عالمی جنگ میں الجھا رہا۔ وہ کنونشنل وار تھی۔ کم از کم اسے ہی پڑھ لیجئے۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ جب بھی پاک بھارت جنگ ہوئی اس کا پہلا مرحلہ روائتی جنگ ہی پر مشتمل ہو گا۔…… کیا قوم نے اس کے لئے کوئی تیاری کی ہے؟
زبانی کلامی ”چونا گیرو“ سے گریز کیجئے۔ یہ وقت صرف ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے نعرے بلند کرنے کا نہیں،کبھی کبھی ایسا کر لیا کریں لیکن اس کی رٹ نہ لگائیں۔ یہ وقت آنے والی پاک بھارت جنگ کی تیاریوں کا وقت ہے۔ خدارا اس پر فوکس کیجئے اور مطلوبہ اور متعلقہ اقدامات اٹھانے میں کسی تساہل سے کام نہ لیجئے۔