فٹے منہ جوائی دا
بھائی صاحب، دال میں کالا نہیں ساری دال ہی کالی ہے۔ آپ یو اے ای کو روتے ہیں،بوری میں سوراخ ہو گیا، بوری خالی ہو گی۔ یو اے ای کے بعد بحرین اور پھر نجانے کون کون تیار ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی گنگناہٹ تو سنیں، چاروں طرف گونج رہی ہے۔ ”کنے کنے جانا بلو دے گھر،ٹکٹ کٹاؤ لین بناؤ“ تو میرے پیارے پاکستانیو، لین بن چکی ٹکٹیں کٹ چکیں۔ گریٹر اسرائیل کا کھیل شروع ہو چکا۔ عرب ممالک ایک دوسرے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اپنے جبہ اور دستار کو سنبھالتے ہوئے ”ککلی کلیر دی، پگ میرے ویر دی، دوپٹہ میرے ویر دا“ تک گا رہے ہیں لیکن ان میں اتنی ہمت نہیں کہ”فٹے منہ جوائی دا“ کہہ سکیں۔ حالانکہ جہاں وہ ہیں انہیں اللہ سے کال لوکل کال پڑتی ہے لیکن وہ اتنے قریب ہو کہ بھی رب سے زیادہ گھسن کو نیڑے محسوس کرتے ہیں۔ ہیکل سلیمانی کا کھیل چند سالوں کی بات ہے۔ بس ہم جیسے پاکستانی اور سیکنڈ ہینڈ مسلمان جلیں گے بھنیں گے آہیں بھریں گے اور ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ کیونکہ اب مسلم ماؤں نے صلاح الدین ایوبی، خوار زم شاہ، محمود غزنوی جننے بند کر دیئے، اب حرموں میں سونے کے چمچوں، ہیرے کی پلیٹوں میں کھانے اوراپنے نشے میں بدمست عیاش حکمرانوں کا دور ہے۔ یو اے ای سے کیا شکوہ جب اس نے اپنی دھرتی پر مندر تعمیر کیا تھا تب ہی بنتا سنگھ پکار اٹھا تھا کہ عقلمند کو اشارہ کافی ہوتا ہے۔لڑکی سنتا سنگھ سے بولی مجھ سے دوستی کرو گے۔
وہ بولا باجی ساڈی پہلاں کیہڑی دشمنی سی، دشمنی تو ان عربوں کی بھارت یا اسرائیل سے پہلے بھی کبھی نہیں رہی۔ بس ایویں شب شبھا کے لئے کبھی کبھی ٹھاہ ٹھو ہو جاتی تھی۔ ان جنگوں سے زیادہ شور تو 14اگست کو ہماری گلیوں میں باجے بجانے والے بچے کر لیتے ہیں۔ باقی جب لڑنے کی باری آتی تھی تو پاکستان کے جوان ہمیشہ جیسا ہے جہاں کی بنیاد پر موجود ہوتے تھے۔بہرحال اصل امتحان اب پاکستانی قیادت کا ہے۔ خیر اگر یہ قوم اتنی جذباتی اور تتّی نہ ہو تو شاید یہ حکمران کب کا کشمیر اور بیت المقدس بھول چکے ہوتے۔ لیکن ایک بات کہے دیتا ہوں سارا عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کرلے یہ بیس کروڑ پاکستانی کبھی نہیں جھکیں گے۔
لو جی کہا سنا معاف ہم ایویں بلکہ ایویں شیویں بڑے بھیا کو پاکستان سے لندن جانے پر سڑیل ساس کی طرح بھگو بھگو کے طعنے مارتے رہے۔
اب پتہ چلا کہ وہ تو باقاعدہ عدالتی ضمانت پر باہر گئے اور یہ ضمانت غیر معینہ مدت کے لئے ہے، اب بنتا سنگھ پریشان ہے کہ وہ صادق اور امین والے عدالتی فیصلے کا احترام کر ے یا عدالتی سہولت کے تحت میاں صاحب کے لندن جانے کے فیصلے کو چم چم کے، جپھی ڈالے۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ عدالتیں انصاف نہیں کرتیں، اپنے یہ بیس کروڑ کیڑے مکوڑے ان کو اتنا ہی انصاف ملنا چاہئے۔ جس سے ان کا ہاضمہ خراب نہ ہو، بھیا میرے شناختی کارڈ پراترانے والے پاکستانی،سپریم کورٹ درست کہتی ہے کہ پاکستان پر مافیاز کی حکومت ہے اور یہ مافیاز ہر شعبے میں رج کے ”بھائی بھائی بھائی تیرے تیل کی کڑاہی،تیرے لون دا بتاشہ تیری سس کرے تماشا“ گاتے پھرتے ہیں اور مزے کی بات ہے کہ اس گانے پر ساس بھی ہر شعبہ میں خوب تماشا کرتی پھرتی ہے۔چلیں یوم آزادی آپ کو مبارک ہو۔جتنی بھی میسر ہے اسے انجوائے کریں اور مافیاز کے ہاتھوں ایسے ہی یر غمال بنے رہیں۔اس سے زیادہ کی ڈیمانڈ کی تو ”کن تھلے“ایسی پڑے گی کہ نانی یاد آجائے گی۔کسی نشئی سے انٹرویو کرنے والے نے پوچھا آپ آنے والی نسل کو کیا پیغام دیں گے؟،وہ بولا اگر میری ”منو تے نہ آؤ“آجکل حالات ٹھیک نہیں۔ لیکن ہم کسی نشئی کی بات کیوں مانیں ہمیں ان حالات میں پیدا ہونے اور مرنے کی اچھی خاصی پریکٹس ہو گئی ہے۔بہر حال میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں اس عدالتی فیصلے کا احترام کرنا میرا فرض ہے جس کے تحت میاں صاحب ایک لمبی ضمانت پر ملک سے باہر گئے ہیں۔
ایک اور خواب دیکھنے میں آخر حرج ہی کیا ہے۔آئی پی پیز کمپنیوں سے نیا معاہدہ،راوی کنارے نیا شہر بسانے جیسا خواب ہے۔یعنی کہ اب ”وائس رائیز“کے ساتھ دوبارہ معاہدے کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔یعنی کہ اب ہم اپنے حالات کے مطابق شرائط رکھنے کی پوزیشن میں بھی ہیں۔آہ آہ کس بے دردی سے ان کمپنیوں نے اس غریب مخلوق کی کمائی کو لوٹا۔ٹبر کے ٹبر کھا گئے اور ڈکار بھی نا ماری۔فی یونٹ اتنا مہنگا رکھا کہ باقی ممالک کی ہنس ہنس کے وکھیاں درد کرنے لگیں لیکن کمیشن مافیا،کک بیکس مافیا اور اپنی تجوریاں بھرنے والے حریص حکمران سب سے بے پرواہ اس غریب مخلوق کی وکھی پر گھسن مارتے رہے۔یہ بجلی کے بل پکڑ کر خودکشیاں کرتے گئے اور فی یونٹ ڈالر کے ساتھ جپھی ڈال کر ”میں اُڈی اُڈی جاواں ہوا دے نال“گاتا رہا۔عورت کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا،لوگ اکٹھے ہو گئے۔ایک شخص بولا چلو باجی عزت بچ گئی،سنتا سنگھ آنسو صاف کرتے ہوئے بولا باجی نے عزت بیچ کر ہی تو یہ دولت اکٹھی کی تھی۔افسوس ہے ایسی سیاسی باجیوں پر جنہیں عوام نے عزت دی اور بار بار دی لیکن یہ اس عزت کو بیچ کر دولت جمع کرتے رہے۔