جب قائد اعظم 19مارچ1940ءکو بذریعہ ٹرین لاہور پہنچے،ا نکا تاریخی استقبال کیا گیا
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی
قسط: 16
محترم حمید نظامی(مرحوم)اس وقت کے جنرل ایوب خان1958ءکے مارشل لاءکی گھٹن کا شکار ہوئے۔حمید نظامی نوجوانی میں صحافت کے بے تاج بادشاہ تھے۔ 25فروری1962ءاللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان کے بعد اُن کے چھوٹے بھائی مجید نظامی نے سب کچھ سنبھالا۔ آپ انگلستان میں تھے،مجید نظامی صاحب نے تحریک پاکستان میں اسلامیہ کالج طالب علمی کے دوران بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اسی طرح دیگر تعلیمی اداروں میں بھی حمید نظامی نے مسلم لیگ ،مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو روشناس کرایا۔ طلباءمیں نئی روح یا نئی زندگی پیدا کر دی۔قیام پاکستان کا مدعا سمجھایا۔غیر متزلزل رہے۔جوش و خروش کے ساتھ ہوش کو قابو رکھا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ(حمایت اسلام) تقریباً 18بار آئے۔ خطا ب کیا۔ طلباءدشمن کے طلسم کو پاش پاش کیا اورحمید نظامی نے تحریک پاکستان کے سپاہی کے طور پر قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمان پر لبیک کہا۔ چنانچہ حمید نظامی نے فکری ذہنی محاذ کیلئے پندرہ روزہ نوائے وقت کااجراءکیا۔ اس وقت لاہور سے زمیندار مولانا ظفر علی خان کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ نوائے وقت بھی میدان میں آگیا۔ انگریزی اخبار ڈان دہلی سے نکالا گیا۔ بلوچستان سے الاسلام اور تنظیم ، ہلا ل پاکستان سندھ اور ملت پشاور سے تھے۔ مگر ہندو اخبارات کے سامنے ان کی حیثیت بہت نمایا ں نہ تھی۔ سرمایہ کم تھا۔
صدرآل انڈیا مسلم لیگ قائداعظم محمد علی جناحؒ جمعرات 19مارچ1940ءکو بذریعہ ٹرین فرنٹیئر میل سے 9بجے لاہور پہنچے۔ ممڈوٹ ولاز تشریف لے گئے۔ جونہی وہ ممڈوٹ ہاﺅس پہنچے ۔ آگے متحرک نوجوان حمید نظامی نے ملکی و غیر ملکی پریس میڈیا کو اکٹھا کر رکھا تھا۔ صدر مسلم لیگ نے ان سے تبادلہ خیالات کیا اور پوری تحریک سے آگاہ کیا جس کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ عظیم الشان تاریخی اجلاس منعقد کررہی تھی۔ اسی اثناءمیں 20مارچ کو خاکساروں پر گولی چلی تھی۔ کچھ بیمار تھے۔ چنانچہ حمید نظامی نے قائداعظم کو سٹیشن پر بریف کیا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ خاکساروں کی عیادت کے لئے ہسپتال گئے۔ ان دنوں "احسان" اخبار بھی تھا۔
22مارچ1940ءکو جمعة المبارک تھا۔ حمید نظامی اس پندرہ روزہ نوائے وقت کے ایڈیٹر تھے۔سارے جلسے کی روداد خود تحریر کی۔ہر طرح کی باگ دوڑ سنبھالی۔اس وقت نہ کمپیوٹر تھا ، نہ ٹیلی کمیونیکیشن کا نظام، نہ ٹائپ ، بس کتابت قلم سے تحریر کی جاتی تھی۔ سائیکل، پیدل ذرائع تھے۔ جو کہ بہت کم تھے۔ پندرہ روزہ نوائے وقت کی صبح سُرخی تھی ۔
”قائداعظم محمد علی جناحؒ کا لاہور پہنچنے پر تاریخی استقبال“
مزید خبر یوں تھی قائداعظم محمد علی جناحؒ کا سرسکندر کا ہار پہننے سے انکار، 100 سے زائد خاکسار زخمی۔ کیا یہ قوم کےلئے کم فیض تھا۔پریس پر کانگریس کا قبضہ تھا۔ اب لوگ آئینے کی طرح شہر کی خبروں اور مسلم لیگ کی رونق کااندازہ لگا سکتے تھے۔
اگر ہم جائزہ لیں تو پرنٹ میڈیا 19اکتوبر1941ءکو ڈان(انگریزی) ہفتہ وار دہلی سے شروع ہوا تاکہ انگریزی پڑھنے والوں کو آگاہی حاصل ہو۔ تحریک پاکستان کے لیڈرقائداعظم محمد علی جناحؒ کا اسم گرامی اخبار کے اوپر تھا۔ اس وقت احمد حسن ایڈیٹر، زیڈ اے سلہری اور عزیز بیگ معاون تھے۔ہر دل عزیزی کی وجہ سے 12اکتوبر1942ءکو روزنامہ بن گیا۔پوٹھن جوزف ایڈیٹر تھے۔بعد میں الطاف حسین ایڈیٹر بن گئے۔ اس پرچے نے نظریہ پاکستان کی انگریزی زبان میںبڑی تشہیر کی ۔ بعد میں مختلف لوگوں کے قبضے میں آگیا۔
”الاامان“ مولانا مظہر الدین نے دیوبندسے1938ءمیں نکالا ۔ مولانا نے حسین احمد مدنی سے اختلاف رکھتے ہوئے مسلم لیگ کو سپورٹ کیا اور مسلم لیگ کے ہو کر رہ گئے۔ مولانا مظہر الدین نے اپنی جان کا نذرانہ 13مارچ1939ءکو الامان کے دفتر میں دیا وہ مسلم لیگ کا ساتھ دینے پر قتل کر دیئے گئے۔ مولانا مظہر الدین اس کے ایڈیٹر تھے۔ جنہوں نے اپنے اخبار کے ٹائٹل پر قائداعظم محمد علی جناحؒ لکھ رکھا تھا۔
”زمیندار“ اخبار کا آغاز1903ءمیں مولوی سراج الدین نے وزیرآباد سے کیا۔ 1909ءمیں ان کے صاحبزادے مولانا ظفر علی خان، مقرر اور صاحب علم نے ادارت سنبھال لی۔ انہوں نے پرچہ لاہور شفٹ کر لیا جو مسلم لیگ کے ترجمان کا کردار ادا کرتا رہا۔” زمیندار“ کی خدمات تحریک پاکستان میں ناقابل فراموش ہیں۔سارے ہندوستان میں پرچے کو روشناس کرایا۔ دہلی سے” جنگ “میر خلیل الرحمن صاحب نے جنگ عظیم کے بعد نکالا اس پرچے نے بھی مسلم لیگ کی اشاعت کی۔مسلم لیگ کی سپورٹ پر حکومت برطانیہ نے ”جنگ “کو بلیک لسٹ کردیا تھا۔
کوئٹہ بلوچستان سے محترم میر جعفر جمالی نے اخبار”تنظیم “نکال رکھا تھا۔ اس کے ایڈیٹر نسیم حجازی تھے۔ مسلم لیگ کی ساری کارروائی شائع کر کے تمام جاگیرداروں ،جرگہ کے ممبران کو بھجوائی جاتی۔ اس کی اشاعت1943ءمیں ہوئی۔ اسی پرچے کی بدولت جرگہ کے لوگوں اوربلوچستان کے ممبران نے 1947ءکے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ دیئے۔ میر جعفر خان جمالی صاحب اخبار کی 500کاپیاں ان لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ ”ہلال پاکستان“ سندھ سے1946ءمیں شائع ہوا۔ہفتہ وار” پیغام سرحد“ اور ”جمہور “ہری پور ہزارہ سے شائع ہوئے۔ ہفت روزہ ”جمہور“غلام جان تارخیلی نے نکالا جو مسلم لیگ کی کارروائی اعلیٰ طریق سے عوام تک پہنچاتا رہا۔”جمہور“ اخبار اور ”پیغام سرحد“ نے راقم کو لکھنے کی طرف راغب کیا۔ پشاور سے” شہباز“ شائع ہوا۔
ہند کے مسلمانوں کیلئے اصل مسئلہ یہ تھا کہ ہندو اور انگریز سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔اخبارات ہی ایک ذریعہ تھے۔ہندو اخبارات قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مسلم لیگ کے خلاف بہت کچھ غلط لکھتے تھے۔حالانکہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کانگریس کے پلیٹ فارم پر16سال رہے اور اونچے درجہ کے رہنما تھے۔ مقرر تھے۔ آپ کانگریس میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ہندو مسلم اتحاد کے نہ صرف حامی تھے بلکہ ہندو اُن کو اس اتحاد کا پیامبر کہتے تھے۔اس کے باوجود مزید17سال اتحاد کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔
( جاری ہے )
کتاب ”مسلم لیگ اورتحریکِ پاکستان“ سے اقتباس (نوٹ : یہ کتاب بک ہوم نے شائع کی ہے، ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔ )