واقعات کی کڑیاں غائب کر دی جائیں تو ڈرامہ حسنِ تناسب سے محروم رہ جائے گا

 واقعات کی کڑیاں غائب کر دی جائیں تو ڈرامہ حسنِ تناسب سے محروم رہ جائے گا
 واقعات کی کڑیاں غائب کر دی جائیں تو ڈرامہ حسنِ تناسب سے محروم رہ جائے گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: ملک اشفاق
قسط: 46
 ارسطو کے نزدیک ڈرامے کی کچھ نہ کچھ طوالت کا ہونا منطقی طور پر اس لیے ضروری ہے کہ بغیر طوالت کے کسی شے کا وجود محسوس و معلوم نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی شے بغیر طوالت یا مقدار کے وجودر کھتی ہو تو اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ہم اس شے کے حسن و قبح کے متعلق کوئی حکم نہیں لگا سکتے کیونکہ جو شے بوجہ عدم مقدار ہمیں نظر ہی نہیں آتی یا کسی حس سے بھی اس کا محسوس ہونا ناممکن ہے تو اس کے تناسب اور نتیجے کے طور پر حسن و قبح کے متعلق کیا کہا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ارسطو لکھتا ہے:
” کوئی بھی شے جمیل خواہ وہ زندہ جسم رکھنے والی ہو، خواہ کچھ اجزاءسے بنا ہوا ایک کل ہو، جس کے اجزاءمیں ترتیب و تنظیم ہے، کچھ نہ کچھ طوالت اور حجم کی مالک ہونی چاہیے کیونکہ حسن، حجم اور تنظیم پر منحصر ہے۔ لہٰذا ایک بہت ہی چھوٹا جانور خوبصورت نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا منظر ایک غیر محسوس زمانی لمحے میں دیکھے جانے کے باعث مبہم اور دھندلا رہتا ہے۔ نہ ہی بہت طوالت رکھنے والا جانور خوبصورت کہلا سکتا ہے، کیونکہ چشمِ انسانی بیک نظر اس کا نظارہ نہیں کر سکتی۔ اس لیے اس کی وحدت اور کلیت کا احساس ناظر کے ذہن میں مکمل طور پر پیدا نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک ہزار میل لمبا جانور ۔چنانچہ جس طرح جانوروں اور دیگر اجسامِ زندہ کا حجم ضروری ہے اور اس قدر حجم جتنا بیک نظر دیکھا جا سکے۔ اسی طرح پلاٹ کی بھی ایک مناسب طوالت ہونی چاہیے جسے آسانی سے ذہن میں محفوظ رکھا جا سکے۔“
 ڈرامے میں جو کردار پیش کئے جاتے ہیں اور جن کے وسیلے سے عمل وجود میں آتا ہے ان کی زندگی میں ہزاروں چھوٹے بڑے واقعات آتے ہیں۔ بے شمار واقعات کا آپس میں کوئی ربط نہیں ہوتا۔ ایسے واقعات کو پیش کرنے سے ڈرامے میں ایک بے ترتیبی اور بدنظمی کے سوا کچھ نظر نہیں آ سکتا اور ان تمام کو بیان کرنے سے ڈرامے کی طوالت اس قدر ہو جائے گی کہ اسے ذہنی گرفت میں لانا مشکل بلکہ محال ہو جائے گا۔ لہٰذا صرف وہی واقعات چنے جاتے ہیں جو ڈرامے کے تانے بانے میں ایک منطقی اور فنی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ پھر اس قسم کے مربطو واقعات کا سلسلہ بھی غیر مناسب حد تک طویل نہیں کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ ڈرامہ سٹیج کرنے پر رونما ہونے والے محدود واقعات ہی کو ذہن میں محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ اگر ان کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے گی تو ان میں ترتیب و تنظیم اور تناسب کا احساس نہیں رہے گا اور نہ ہی ان تمام کو پیش نظر رکھتے ہوئے کلی تاثر لیا جا سکے گا۔ ڈرامہ کا اثر غیر مناسب طوالت کے باعث پھیل کر پھیکا ہو جائے گا۔ ناظرین وقارئین کو درمیان تک پہنچتے پہنچتے آغاز بھول جائے گا اور انجام تک پہنچتے پہنچتے آغاز اور درمیان دونوں فراموش ہو جائیں گے۔ اس کا فنکارانہ تاثر کلی طور پر مرتب نہیں ہو سکے گا۔ اس کے برعکس اگر ڈرامے کی طوالت بہت کم ہو اور اس میں سے بہت سے ضروری واقعات بھی حذف کر دیئے جائیں یا اختصار کی دھن میں واقعات کے سلسلے کی بہت سی کڑیاں غائب کر دی جائیں تو بھی فنی تاثیر میں کمی واقع ہو جائے گی اور ڈرامہ حسنِ تناسب سے محروم رہ جائے گا۔ واقعات میں جو فنی اور منطقی ربط ناظرین کی تسکین کا باعث بنتا ہے مفقود ہوگا۔ قدم قدم پر تشنگی اور عدم تکمیل کا احساس ہوتا رہے گا۔(جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔

مزید :

ادب وثقافت -