آج سولہ دسمبر ہے

آج سولہ دسمبر ہے
آج سولہ دسمبر ہے

  

آج سولہ دسمبر ہے۔وہ دن جب میرے مُلک کا مشرقی بازو مجھ سے جُدا ہوا۔ایک گھاﺅ ہر حساس پاکستانی کے دل پر لگا اور آنکھوں سے آنسو نہیں خون بہا۔ آئیے آج کے دن میں اپنی کچھ یادیں آپ سے شیئر کروں۔ مَیں جو انیس سو انتہر اور انیس سو ستر کے دنوں میں ڈھاکہ یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔

ریس کورس روڈ پر ڈھاکہ کلب مسکراتا ہے۔کارڈ روم سے باہر آکر یہاں سیڑھیوں پر ٹھہر کر ایک ٹک مَیں نے ماحول کے سحر کو دیکھا ہے۔ نیل گوں مدھم روشنی میں ڈوبے لاﺅنج میں میزوں کے گرد بیٹھے خوش پوش لوگ پینے پلانے اور خوش گپیوں میں مگن ہیں۔چاق و چوبند بیرے سروس کے لئے مستعد ہیں۔اندر ایک انجانے پُراسرار سے گیت کی دُھن مدھم سروں میں بج رہی ہے۔ میری واقف بنگالی فیملی پورٹیکو کے قریب کھڑی کچھ لوگوں سے محو گفتگو ہے۔ مَیں قریب پہنچتی ہوں۔کوک ٹیل کا گلاس ہاتھ میں پکڑے مسز خان سے باتیں کرتا وہ لمبا تڑنگا نوجوان مجھ سے مخاطب ہوتا ہے۔ ”لاہور خوبصورت جگہ ہے، مَیں وہاں گیا تھا“.... ”اچھا“۔ مَیں کہتی ہوں....”مَیں نے واہگہ سیکٹر میں شہدا کی یادگاریں بھی دیکھی ہیں۔“ مَیں نے پھر مختصراََ ”اچھا“ کہا ہے۔

بلوچ رجمنٹ کے نوجوانوں کا یہ پیغام پڑھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے:”عزیز ہم وطنو!جب آپ پاکستان کے مختلف علاقوں میں جائیں تو ہمارے بارے میں یہ بتلانا نہ بھولیں کہ ہم نے اپنا آج آپ کے کل کے لئے قربان کر دیا ہے“.... مَیں دلچسپی اور اشتیاق سے اس کی طرف دیکھتی ہوں اور پوچھتی ہوں:”تو پھر آپ یہ پیغام لوگوں کو بتا رہے ہیں نا“.... ”اوہو نہیں“۔ وہ کندھے اُچکاتا ہے۔ گردن سے کہیں نیچے پہنچے ہوئے بالوں پر ہاتھ پھیرتا ہے:” مَیںدراصل اس وقت امیچیور تھا۔بلوچ رجمنٹ ہمارے لئے نہیں، ویسٹ پاکستان کے لئے شہید ہوئی تھی“.... مَیں نے ہونٹوں کو سی لیا ہے کہ اس شاندار عمارت میں جہاں صرف قہقہے ہی سنائی دیتے ہیں۔اُونچے اُونچے بولنا اور سیاسی بحثیں کرنا بے حد معیوب خیال کِیا جاتا ہے۔میری آنکھیں گیلی ہیں کہ میرا بس اُن پر ہی ہے۔

میری رُوم میٹ بینو مجھ سے کہتی ہے : ”تم نے سُنا ہے۔شری متی اندرا جی نے کہا ہے۔جنت میں فرشتے کیوں لڑتے ہیں“.... مَیں نے رنج سے اُسے دیکھا ہے اور سر جُھکا لیا ہے۔باہر آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔بنگلہ اور اُردو پر جھگڑا ہوگیا ہے۔مسلمان کا گلا مسلمان کاٹ رہا ہے.... مجھے دربان پیغام دیتا ہے کہ آپ سے ملنے کوئی آیا ہے، مَیں نے حیرت سے سوچا ہے کہ اس قیامت کے سمے میں کون ہو سکتا ہے۔ریسیپشن رُوم میں تیرہ چودہ سالہ لڑکا مجھے نظر آتا ہے جو کہتا ہے : ”میری ماں آپ کے ساتھ پڑھتی ہیں، مسز نیلما ابراہیم، انہوں نے مجھے بھیجا ہے کہ مَیںآپ کو یہ دے آﺅں۔ معلوم نہیں ہال میں آپ کو کھانے کو کچھ ملا ہے یا نہیں“.... مَیں لفافے کو بغور دیکھتی ہوں،میرے سینے میں جذبات کا طوفان اُمنڈا ہے۔باہر اور اندر کا یہ تفاوت میرے حساس ذہن کے ٹکڑے کرگیا ہے۔ مَیں نے اُمنڈتے آنسوﺅں کو پی لیا ہے،پر میرا جی چاہا کہ مَیں اس خاکی لفافے کو سارے ڈھاکے میں گھما دوں۔

یہاں بیتُ المنیرہ میں مَیں حمیدہ پاپیا کے گھر کے سامنے پریشان کھڑی اُس سائیکل رکشے والے کو دیکھ رہی ہوں جو مجھ سے اُلجھ رہا ہے اور غصّے سے کہہ رہا ہے کہ وہ ڈیڑھ روپے سے ایک پائی بھی کم نہیں لے گا۔ ہم جانتے ہیں، وہ کہتا ہے۔ ”تم پچھمی پاکستانی ہماری ساری پٹ سن سمیٹ کر لے جاتے ہو۔ ہماری چینگڑی ماچھ کا غذائیت سے بھرا سر تک نہیں چھوڑتے ہو، تم لوگ ظالم ہو“۔ میرے حلق میں کڑواہٹ ہی کڑواہٹ ہے۔ دُکھ سے مَیں نے سوچا ہے، یہ سادہ لوح جاہل انسان جس کی دولت چینگڑی مچھلی ہے۔کل اِس کا سر کھانے والے کا سر نہیں پھوڑے گا تو اور کیا کرے گا؟

کوریڈور کے آخری کونے میں کھڑی زار زار روتی ہوں۔شدت گریہ سے میری آنکھیں جلنے لگی ہیں۔ عبدالمالک زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا ہے۔ عبدالمالک جو میرا رشتہ دار نہیں،میرا عزیز نہیں، جس سے میں ابھی تک ملی بھی نہیں۔پر وہ میری متاع تھی۔ میری قوم کی گراں قدر متاع کہ وہ دشمن ِ دین و وطن عناصر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنا ہوا تھا۔اِس دیوار کو ٹی۔ایس۔سی سینٹر میں عوامی لیگی غنڈوں نے توڑ ڈالا تھا۔ حُبُ الوطنی کے چند دیوں میں سے ایک اور بُجھ گیا ہے۔اندھیرے بڑھ رہے ہیں۔معلوم نہیں یہ کِس کِس کو نگلیں گے۔

1947ءمیں وہ روتی تھی،تب اس کے منگیتر نے اُس سے کہا :”سومتیا،تم ایک دن یہ ضرور سنو گی کہ ٹکڑے کرنے والوں کے ٹکڑے کردئیے گئے ہیں۔شکست سے سبق سیکھنا پڑتا ہے اور ہم نے سیکھنے کا عزم کرلیا ہے“.... اور آج مَیں روتی ہوں۔ ڈھاکہ چھن گیا ہے، زندگی کے معمولات میں کوئی فرق نہیں۔ مَیں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا ہے۔یہاں کوئی نہیں جو مجھے یہ کہے کہ روتی کاہے کو ہو۔ عزم ہونا چاہئے۔ ٹوٹے ہوﺅں کو جوڑا بھی جا سکتا ہے۔ میرا باپ اور میرا اکلوتا بھائی اپنے کاروبار میں بے طرح منہمک ہیں اور منگیتر پرو موشن کے امتحانوں کی تیاری میں۔

وہ اپنے آراستہ پیراستہ گھر میں کِسی مہارانی کی طرح رہتی تھی۔ وہ جو ماچھ بھات کھاتی تھی۔ ابوالاعلی مودودیؒ کی کتابوں کو اٹک اٹک کر پڑھتی تھی۔نواکھالی کی کٹھن بنگلہ بولتی تھی۔ وہ جو روٹی کھانے ، لسّی پینے اور پنجابی بولنے والوں سے بہت پیار کرتی تھی، وہ جسے لاہور آنے کی بہت تمنا تھی۔ میری آنکھیں ڈب ڈب کر اُٹھی ہیں کہ مَیں نے اُسے لاہور کے ایک ٹوٹے پھوٹے گھر میں ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر ہاتھ سے پنکھا جھلتے دیکھا ہے۔آنسو اُس کی آنکھوں سے خشک ہیں۔ایک نظر اُس نے کھڑکی سے باہر اُگے سبزے پر ڈالی ہے اور کہا ہے: ”لاہور تو مَیں آنا چاہتی تھی پر ایسے نہیں جیسے آئی ہوں“۔

وہ پھر خاموش ہے دیر بعد اُس نے کہا ہے:”تم میرے جذبات کو شاید سمجھ ہی نہ سکو۔ زمین کا وہ ایک خاص قطعہ جس میں وہ صدیوں سے رہتا چلا آیا ہو، جس سے اُس کے ذہنی و جذباتی رشتے وابستہ ہوں اور وہ اُسے اپنی اور بالکل اپنی سمجھتا ہو۔ پَر ایک دن ایکا ایکی اُس کے سارے رشتے اُس سے ٹوٹ جاتے ہیں اور اپنی جان بچانے کے لئے اُسے اَن دیکھی جگہوں کی طرف بھاگنا پڑتا ہے“.... اور مَیں نے رندھے گلے اور برستی آنکھوں سے سو چاہے اگر میرے ساتھ ایسا ہو۔میرے دل کی گہرائیوں سے صرف یہ دعا نکلی ہے۔ مَیں”یہ ٹکڑا میرے معبود ابد تک قائم رہے“۔

مزید :

کالم -