استثنا....!

استثنا....!
استثنا....!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈاکٹر سید یوسف رضا گیلانی کو ابھی تک ےہ غم کھائے جا رہا ہے کہ انہیں وزارت عظمیٰ سے بزور قانون کیوں ہٹاےا گےا اور اس کا اعادہ وہ افسانے کی بنےاد پر تقریباً ہر ملنے والے سے عموماً اور ہر پریس کانفرنس میں خصوصاً بڑے دکھ سے کرتے ہیں۔ ابھی تک اپنے آپ کو وزارت عظمیٰ کے تخت پر ہی دیکھتے ہیں ،یہی وجوہات ہیں کہ انہوں نے سیکیورٹی کے نام پر آٹھ دس پروٹوکول اور ایک ہوٹر والی گاڑی قابو کر رکھی ہے، جو ابھی تک ان کے وزارت عظمیٰ جانے کے درد کو تھوڑا سا کم کرنے میں معاون ہے، جبکہ سیکیورٹی اداروں کو دھمکیاں اور عدالتوں کو کوسنا اضافی مشغلہ ہے ۔جب ےہ وزارت عظمیٰ کے تخت پر سوار تھے، تو انہوں نے کئی ورلڈ اور مقامی ریکارڈ قائم کئے تھے، جس میں ملک کا پہلا متفقہ وزیراعظم منتخب ہونا بھی شامل تھا، جبکہ عدالت عظمیٰ نے سب سے زےادہ عرصے تک وزیراعظم رہنے والا ریکارڈ نہ بننے دےا، بلکہ بنا بناےا ریکارڈ ٹکڑے ٹکڑے کر دےا ہے ۔(ےہ غم علیحدہ سے ہے۔) اقتدار کے دنوں کے ان کے ریکارڈ کے لئے تو ہزاروں، بلکہ لاکھوں صفحات درکار ہوں گے، لیکن وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد وہ جو ریکارڈ بناتے پھر رہے ہیں، وہ بھی خاصے دلچسپ اور غور و فکر کے طالب ہیں ۔
کہتے ہیں: جس نے مجھے گرفتار کرنا ہے کر لے ،پھر کہتے ہیں کوئی مائی کا لال مجھے گرفتار نہیں کر سکتا۔ملتان سے اسلام آباد چلے جاتے ہیں اور دھمکی اور تحقیر آمیز لہجے میں چیلنج کرتے ہیں مجھے گرفتار کر لیں ۔عدالت کے ساتھ ساتھ چیئرمین نیب پر بھی برستے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ خود نیب کو مطلوب ہیں، مجھے کیسے گرفتار کرا سکتے ہیں۔ کبھی استثنا کا دعویٰ کر دیتے ہیں اور اب مےاں محمد نواز شریف کو ڈرا دےا ہے کہ اگر نیب مجھے گرفتار کرتی ہے ےا پیش ہونے کا کہتی ہے، تو کل آپ کو بھی ےہ بھگتنا ہو گا ،جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کو کھری کھری سنا دی ہیں کہ انہیں کیوں استثنادےا گےا، یعنی چاہتے ہیں کہ وہ اپنے آصف علی زرداری کو بھی جیل لے جا سکیں۔ دوسری طرف وہ پارلیمنٹ سے بھی نالاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ استثنا ختم ہو جائے تا کہ وہ اکیلے جیل نہ جائیں۔بہرحال خواہش تو خواہش ہوتی ہے۔
 حقیقت ےہ ہے کہ ڈاکٹر سید یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دور میں ان کی اپنی ذاتی اجازت اور احکامات سے نیشنل انشورنش کمپنی لمیٹڈ(این آئی سی ایل) کا سر براہ خانیوال سے تعلق رکھنے والے اےاز نےازی کو مقرر کےا گےا ، جو ان کے سب سے بڑے بیٹے عبدالقادر گیلانی کا بچپن کا دوست اور کلاس فیلو ہے ، میٹرک سے آگے تعلیم بھی نہیں حاصل کر سکا تھا۔ اےاز انےازی نہ تو زےادہ تعلیم ےافتہ ہے، نہ اسے کسی ادارے ےا دفتر کو چلانے کا تجربہ تھا۔ کوئی ٹیکنیکل تعلیم نہیں بھی تھی ۔ خصوصاً انشورنس کے اسرار ورموز سے بھی شاید کوئی واقفیت نہ ہو، لیکن اسے ایک ایسی سرکاری کمپنی کا سر براہ بناےا گےا، جس کے فنڈز میں اربوں روپے کیش مختلف ملکوں میں رکھے ہوئے تھے۔ اےاز نےازی نے اپنی کاریگری اور عبدالقادر گیلانی کی فنکاری سے اس عوامی دولت پر جس صفائی سے جھاڑو پھیر،ا اس کی وجہ سے آج کل ےہ کمپنی قریب المرگ ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر سید یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں کہ مجھے سےاسی کیس میں پھنساےا جا رہا ہے اور مَیں ،مےاں نواز شریف کی حکومت میں پہلا سےاسی قیدی ہوں گا، حالانکہ ےہ انہیں خود، سرکاری ایجنسیوں ،قریبی دوستوں ،عزیزوں اور نیب کے تحقیقاتی افسروں کو بھی معلوم ہے کہ ےہ سےاسی کیس نہیں ہے، بلکہ ےہ ڈکیتی کیس ہے، جس کے ثبوت نیب سمیت مختلف اداروں اور لوگوں سمیت خود این آئی سی ایل ریکارڈ میں بھی موجود ہیں۔
اس کے باوجوداگرثبوتوں کی کمی ہوئی تو ان کے انتہائی قریبی ساتھیوں سابق ایم پی اے ڈاکٹر جاوید صدیقی ،چودھری فاروق بندہ ( آج کل کراچی میں مقیم ہیں اور سٹیل ملز کو اس حال میں پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ اس بارے پھر کبھی سہی) بہاﺅالدین زکرےا یونیورسٹی کے محمد نعیم خان اور اس وقت کینیڈا میں مقیم مےاں امجدسے مزید بھی تفصیلات حاصل کی جا سکتی ہیں ....ےاد آےا مےاں امجد چھجڑا فراڈ چیک کیش کراتے ہوئے ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے اور اب معلوم نہیں ان کے مقدمات کا کےا بنا، لیکن اس وقت وہ عبدالقادر گیلانی کے کینیڈا اور دبئی میں معاملات اور کاروبار کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ےہ تو صرف ایک این آئی سی ایل ہے، اس جیسے سینکڑوں کیس اور موجود ہیں،جن میں ڈاکٹر سید یوسف رضا گیلانی خود اور اُن کے بیٹے براہ راست ملوث ہیں۔ علی موسیٰ گیلانی کا صرف ایک ایفی ڈرین کوٹہ کیس ہی کافی ہے، جس سے اندازہ لگاےا جا سکتا ہے کہ ےہ کتنے سےاسی کیس ہیں اور انہیں خود معلوم ہونا چاہئے ۔وہ اس ملک کے وزیراعظم رہے ہیں، اخلاقی اور قانونی طورپران کا فرض ہے کہ وہ نیب سمیت تمام اداروں میں خود جا کر اپنی پوزیشن واضح کریں ۔
وزارت عظمیٰ کا مطلب ےہ کبھی نہیں ہوتا کہ آپ کو لائسنس ٹو کل اور مادر پدر آزاد کر پشن کا لائسنس مل گےا ہے اور کوئی نا قابل دست انداز ہو گےا ،کوئی مافوق الفطرت ہو گیا ےا کوئی مریخی مخلوق میں تبدیل ہو گےا اور نہ ہی آئین میں کوئی اس قسم کا استثنا ہے کہ کوئی اپنے عہدے یامنصب کا استعمال کرتے ہوئے کرپشن کا سمندر بن جائے۔ نہ صرف خود ،بلکہ اولاد اور بھائی بھی ،پھر واویلا شروع کر دیں کہ ےہ سےاسی طور پر ہراساں کےا جا رہا ہے۔ اگر ڈاکٹر سید یوسف رضا گیلانی خود سے اپنے ماضی پر نظر دوڑائیں ،تو انہیں بخوبی نظر آئے گا کہ ان کے والد مرحوم پر بھی ”ایبڈو“ لگی تھی، جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب میں بھی کےا ہے۔ انہیں ےہ بھی معلوم ہے کہ ےہ سےاسی نہیں تھی اور نہ ہی ان کے والد باقی سےاست دانوں کی طرف ایبڈو کے خلاف عدالت میں گئے تھے، جس کا مطلب وہ خوب سمجھتے ہیں ۔موصوف خود بھی انہی معاملات میں پہلے جیل کاٹ چکے ہیں اور اب ان کی اولاد پر بھی وہی الزامات ہیں ،یعنی ےہ تیسری نسل ہے (مخدوم سید یوسف رضا گیلانی سے ڈاکٹر سید یوسف رضا گیلانی کیسے؟.... ”ےہ کہانی پھر سہی“)    ٭

مزید :

کالم -