ہم ایسے تو نہ تھے

ہم ایسے تو نہ تھے
ہم ایسے تو نہ تھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ویسے تو بحیثیت مجموعی ہم جمود کا شکار ہیں لیکن کبھی کبھی جوہڑ میں پتھر اس میں طلاطم پیدا کردیتا ہے اور آج اسی طلاطم نے مجھے اپنی ڈگر سے ہٹ کر بات کرنے پر مجبور کیا ہے۔
کہنے کو تو ایک چھوٹا سا واقعہ ہے کہ پنجاب پولیس نے معذوروں کے عالمی دن کے موقع پر ملازموں میں نابیناؤں کے کوٹے پر عملدرآمد کا مطالبہ کرنے والے نابینا افراد پر لاٹھیاں برسائیں، انہیں دھکے دئیے یعنی آنکھوں والے طاقت کے نشے میں اندھے ہوگئے اس وقت تک اس وقعے پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہوگا لیکن یہ واقعہ کئی واقعات کا تسلسل ہے۔ ویسے تو بحیثیت قوم ہماری دور کی یادداشت کمزور ہے لیکن قریب کی یادداشت نے پہلے سے موجود ہلچل میں اضافہ کیا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ایک زمیندار نے لڑکے کے ہاتھ کاٹ کر اسے عمر بھر کے لئے معذور بنادیا، ایک مسیحی جوڑے کو اینٹوں کے بھٹے میں ڈال کر اُن کی ہڈیوں کو راکھ بنادیا گیا، بچے پر کتا چھوڑ دیا گیا، خاتون کا ناک کاٹ ڈالا گیا، چہرے پر تیزاب پھینک دیا گیا بقول ناز خیالوی
ہر ظلم کی توفیق ہے ظالم کی وراثت
مظلوم کے حصے میں تسلی نہ دلاسہ
کیا ہم شروع سے ایسے تھے؟ یقیناً نہیں، کچھ زیادہ دیر نہیں مجھے اپنے لڑکپن کا لاہور یاد ہے۔ بس یا ویگن میں سوار بزرگ کو کھڑا دیکھ کر نوجوان اپنی نشست خالی کردیتے تھے بھلے ہی یہ نشست انہوں نے ڈیڑھ گھنٹہ سٹاپ پر کھڑے رہنے کے بعد حاصل کی ہے۔ سوار بھی بزرگوں، ضعیفوں اور نابینا افراد کے لئے موٹرسائیکل یا گاڑی روک دیا کرتے تھے، بچے ہمسایوں کے لئے بھی سودا سلف لادیتے تھے، سڑک پر چلتے جانور کے لئے رفتار دھیمی کرنا، مسافروں کو کھانا کھلانا، رکی ہوئی گاڑی یا موٹر سائیکل سوار کی مدد کرنا، سڑک پار کروانا، دوسرے کے بچوں کو ڈانٹنا اورنصیحت کرنا تو معمول تھا اور ایسے مناظر تو عام دیکھنے کو ملتے تھے۔ ان یادوں سے اتنا تو واضح ہوا کہ ہم ایسے نہ تھے۔ پھر ہمیں اس سے متضاد مناظر کیوں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اب کسی بزرگ کے لئے بس میں جگہ کیوں نہیں چھوڑی جاتی۔ اب نابینا افراد کو سڑک پار کرانا اور سواری پر بٹھانا تو دور کی بات ڈنڈوں اور دھکوں سے تواضع کیوں کی جاتی ہے؟ اب بچے ہمسائے کا سودا سلف کیوں نہیں لاتے؟ اب دوسرے کے بچوں کو سمجھانے والے بڑے کہاں گئے؟ اب برداشت اور رواداری کہاں گئی۔ ابھی کل کی بات ہے کہ دو عمر رسیدہ شریف زادے بیچ سڑک میں گاڑیاں روک کر ایک دوسرے کو انگریزی میں شجرہ نسب یاد کروارہے تھے، گاڑیوں میں ان کی اولاد بہت کچھ دیکھ رہی تھی اور پیچھے سے آنے والی گاڑیوں نے ہارن بجا بجا کر آسمان سر پر اُٹھا رکھا تھا گویا بچوں کی تربیت میں ان کا شور رکاوٹ تھا۔۔۔ لیکن ہم سب تو ایسے نہیں ہیں۔ اب بھی ہم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ٹی وی پر کسی کے علاج کے لئے کی گئی فریاد سُن کر بے قرار ہوجاتے ہیں۔ ابھی بھی قیدیوں کو چھڑانے والے، لاوارث مردوں کو کفنانے والے، تیزاب سے مسخ چہروں کو مفت میں سنوارنے والے اس معاشرے میں موجود ہیں یعنی ابھی روشنی موجود ہے، ہاں مدھم ضرور ہوئی ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد کم ضرور ہوئی ہے۔ ہم ایسے ہوتے ضرور جارہے ہیں۔ اس کے نفیساتی، معاشی، سماجی کئی عوامل ہیں لیکن میں اسے ایک عام شہری کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ جب ایک عام پاکستانی دفاتر کے جنجال، کاروبارکے مندا ہونے کا احساس لے کر گھر آتا ہے یہاں اسے بجلی، پانی، گیس کے بل، بچوں کی فیس، دودھ کا بل، ادوایہ، وین والے کی فیس اور کچھ ناگہانی خرچے سننے کو ملتے ہیں وہ ان سب پریشانیوں سے وقتی فرار کے لئے ٹی وی پر بیٹھتا ہے تو خراب اقتصادی صورتحال، غیر یقینی ملکی صورتحال، دھماکے، قتل، بدتمیزی، بدزبانی، اشتعال اور جلاؤ گیراؤ کی خبریں سنتا ہے وہ کھیلوں میں پناہ لینے کے لئے کھیلوں کا چینل لگاتا ہے، جہاں کبھی پاکستانی ٹیم اس کو خوش کردیتی تھی اور وہ عارضی طور پر اپنے سارے غم اپنی ساری سوچیں اور پریشانیاں بھول جاتا تھا لیکن اب اسے کھلاڑیوں پر پابندی، کسی ٹیم کا پاکستان نہ آنا، بری کارکردگی اور کھلاڑیوں میں سیاست کا پتہ چلتا ہے، ایک نئی پریشانی ۔۔۔ وہ اشتعال میں آکر پھر چینل بدلتا ہے اور کوئی ڈرامہ دیکھنا چاہتا ہے اسے بڑے بڑے گھر، پرتعیش طرز زندگی، بڑی گاڑیاں نظر آتی ہیں جو اس کے اندر کے ناکامی کے احساس یا احساس کمتری کو شدید کردیتی ہیں۔ یہ سب کچھ اس کے ذہن میں گھوم رہا ہوتا ہے جب وہ سڑک پر آتا ہے تو وہ کچھ نظر آتا ہے جو ہم روز سڑکوں پر یا اخبارات میں دیکھتے ہیں۔ نتیجتاً اسے اب کسی سے غرض نہیں کون مررہا ہے؟ کوئی جانور نیچے آرہا ہے، اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہمسائے کا بچہ کیا کررہا ہے؟ اسے اس سے غرض نہیں کہ کسی ضعیف نے اس سے لفٹ مانگی تھی، بلکہ اسے شک اور خوف ہے کہ لفٹ لینے والا ابھی پستول نہ نکال لے۔ اسے خوف ہے کہ ہمسایہ لڑے گا میرے بچے کا معاملہ ہے تم کون ہو؟ سڑک پار کروانے کا اس کے پاس وقت نہیں ۔۔۔ کیونکہ کسی کے پاس اس کے لئے وقت نہیں ۔۔۔ اسے کسی نے کبھی جگہ نہیں دی وہ کسی کو جگہ کیوں دے، اس سے کسی سے تمیز سے بات نہیں کی، ہر طرف بدزبانی سنی تو وہ کیوں تمیز سے بولے ۔۔۔ اس کی ساری ناکامیاں، ساری تلخیاں، ساری محرومیاں ایک پر یشر ککر کی طرح پھٹ جاتی ہیں اور اس دھماکے میں ساری اقدار، ساری روایات دھواں ہوتی جاری ہیں ۔۔۔ آئیے ان سنہری اقدار اور روایات کو زندہ رکھیں تاکہ ہمارے بچے بھی میری طرح کہہ سکیں ’’ہم ایسے تو نہ تھے‘‘
(کالم نگار بیکن ہاؤس سکول میں اردو کے استاد ہیں)

مزید :

کالم -