فلم انڈسٹری کی بحرانی صورتحال میں کافی حد تک کمی
لاہور(حسن عباس زیدی سے)پاکستان فلم انڈسٹری کی بحرانی صورتحال میں کافی حد تک کمی ہوئی ہے 2016ء میں امید کی جاسکتی ہے کہ فلمی صنعت کا بحران کسی حد تک کم ہوجائے گا۔ سال2015ء میں فلم ا نڈسٹری کے مسائل بہتر ہوئے اورفلم سازی کے رحجان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ۔سال2015ء میں 16 اردو ،3پنجابی ،19پشتو اور45ہندی زبان میں فلمیں ریلیزہوچکی ہیں۔ ان فلموں میں ڈائریکٹر ندیم بیگ کی ’’جوانی پھر نہیں آنی ‘‘ بزنس کے اعتبار سے سے کامیاب فلم قرار پائی ۔باقی فلمیں کوئی خاص بزنس نہیں کرپائیں جن کی ناکامی کی وجہ سے سے لالی ووڈ کوکروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ جرار رضوی نیتین سال قبل فلم ’’امن کی آشا‘‘بنانے کابھی اعلان کیا تھا لیکن تاحال اُس کی شوٹنگ شروع نہیں ہوسکی۔2015ء میں فلم سازی کے رحجان میں بہتری آئی ہے ۔اس سال کراچی کی سطح پر مسلسل فلمیں بن رہی ہیں جبکہ لاہور میں بھارتی فلموں کی نمائش کورکوانے اور پاکستان فلم انڈسٹری کی بقاء کے لئے چلائی جانے والی تحریک آپسی نا اتفاقی اور انتشار کے باعث ناکام ہوگئیں۔ ماضی میں بھی اس قسم کی کئی تحریکیں آپسی سیاست کی نظر ہوچکی ہیں۔چند لوگوں پر مبنی اس ٹولے کے لیڈر شوکت زمان بھی مایوس ہوکر دو سال پہلے واپس کراچی چلے گئے تھے۔بھارتی فلموں کی نمائش کی حامی لابی کا کہنا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو فلمی صنعت کی تباہی کے ذمہ دار ہیں اور اب سینما انڈسٹری کو تباہ کرنے پر تُل گئے ہیں اگر سینماؤں میں بھارتی فلمیں نہ لگتیں تو آج اس ملک میں کوئی بھی سینما باقی نہ ہوتا ۔پروڈیوسرذوالفقار مانا کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں کوئی بھی شخص گھاٹے کا سودا کرنے کو تیار نہیں ہے۔میں نے کئی سال بعد فلم’’بلائنڈ لو‘‘بنائی ہے جس کو سید فیصل بخاری نے ڈائریکٹ کیا ہے یہ فلم2016ء میں عام نمائش کے لئے پیش کی جائے گی ۔بھارتی فلموں کی نمائش کی مخالفت کرنے والوں میں ایک بھی پروڈیوسر فلم بنانے کے لئے تیار نہیں ہے یہ سب سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے کیا جارہا تھا۔ سینئر فلمساز مشتاق زیدی نے کہا کہ لالی ووڈ میں لابی ازم ہمیشہ سے اس کی وجہ سے یہ صنعت تباہ ہوئی ہے یہ ہر اُس شخص کی جڑیں کاٹتے ہیں جو حق کی بات کرتا ہے نئے آنے والوں کے ساتھ ان کا سلوک بہت بُرا ہوتا ہے اب فلم انڈسٹری کو بچانے کی باتیں احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے سید نور جو بھارت کی مخالفت میں سب سے آگے تھا وہ خود پیسے کی خاطر بھارتی فلم ڈائریکٹ کرچکا ہے۔فلمی صنعت کی اکثریت کے قول و فعل میں کھلا تضاد ہے۔فلمی صنعت کے زوال کا ایک سبب میڈیا سے دوری ہے ہم لوگ میڈیا کی اہمیت کو جانتے ہی نہیں ہیں۔سٹار میکر جرار رضوی کا کہنا ہے کہ باتوں میں سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں لیکن عملی طور پر یہ سب صفر ہیں وہ لوگ کہاں ہیں جنہوں نے اس انڈسٹری سے کروڑوں روپے کمائے ہیں وہ سب لوگ اگر ایک ایک فلم بھی شروع کریں تو فلمی صنعت کا بحران ختم ہوسکتا ہے۔
مفاد پرست اور ابن الوقت لوگوں کی وجہ سے آج ہمارے نگار خانے ویران پڑے ہیں۔میں نے فلم انڈسٹری کی بقاء کی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ہم لوگوں نے اگلی نسل کو تیار ہی نہیں کیا جس کی وجہ سے ہم برباد ہوچکے ہیں ۔پرویز کلیم کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ ہماری تحریک ناکام ہوچکی ہے کچھ ملک دشمن ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں اُن کو مُنہ کی کھانی پڑے گی پاکستان فلم انڈسٹری ایک بار پھر عروج پائے گی اس کو دوبارہ عروج تک ہمارے ملک کے نوجوان لے کر جائیں گے۔سینما مینجمینٹ ایسوسی ایشن کے چئیر مین قیصر ثناء اللہ نے کہا کہ بھارتی فلموں کی نمائش ہماری مجبوری ہے کیونکہ اس صنعت سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اگر سینما بند ہوگئے تو کئی گھروں کے چولہے بند ہوجائیں گے۔میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے سینما میں پاکستانی فلمیں ہی نمائش کے لئے پیش کی جائیں۔