سعودی بلدیاتی انتخابات: خواتین کی نمائندگی خوش آئند
تجزیہ :آفتاب احمد خان
سعودی عرب کے بلدیاتی انتخابات میں پہلی مرتبہ خواتین کو ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کا موقع دیا گیا ہے، ملک میں بلدیاتی ادارے ہی واحد منتخب ادارے ہیں، ان میں خواتین کی نمائندگی خوش آئند ہے خصوصاً اس صورت میں کہ وہاں خواتین کی گھر سے باہر سرگرمیاں روایتی اور بعض صورتوں میں قانونی لحاظ سے بہت محدود ہیں، اس میں عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت نہ ہونا بھی شامل ہے، اس طرح انہیں بلدیاتی انتخابات لڑنے اور ووٹ ڈالنے کی اجازت کو بہت اہم پیشرفت سمجھا جا رہا ہے۔
چونکہ سعودی خواتین کے لئے انتخابی جھمیلوں میں پڑنے کا یہ پہلا موقع تھا اس لئے انہیں خاصی دشواریاں بھی پیش آئیں جن میں زیادہ مرد ووٹروں سے رابطہ نہ کر سکنا بھی شامل ہے جبکہ سرکاری دفاتر میں آنا جانا بھی ان کا معمول نہیں تھا مگر انہیں بطور ووٹر اور امیدوار سرکاری اہلکاروں سے رابطے کی ضرورت پیش آتی رہی۔ اس وجہ سے دس فیصد سے کم خواتین ووٹ بنوا سکیں، ایسی صورت میں خاتون امیدواروں کے جیتنے کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی کیونکہ انہیں زیادہ ووٹ عورتوں ہی کے مل سکتے تھے۔ سعودی خواتین ووٹ کا حق ملنے اور امیدوار بننے ہی کو فی الحال کافی سمجھتی ہیں اور انہیں امید ہے کہ رفتہ رفتہ صورت حال ان کے لئے مزید مفید ہوتی جائے گی۔ انہیں سترہ سیٹیں مل جانا بھی بڑی بات ہے۔ دو سو اڑتالیس بلدیاتی اداروں میں ایک تہائی نشستوں پر براہ راست انتخابات نہیں ہوئے، ان پر نامزدگیاں وزارتِ بلدیات کرے گی، اس طرح خواتین کو توقع ہے کہ ان نامزدگیوں میں ان کی باری بھی ضرور آئے گی۔
سعودی معاشرے نے خواتین کو ووٹ کا حق ملنے پر خوشگواری محسوس کی ہے اور خاتون امیدواروں کا کہنا ہے کہ وہ انتخابی مہم کے دوران میں جہاں بھی گئیں ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ بعض خاتون امیدواروں نے انتخابی مہم میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کیا اور اپنے منشور اپنی ویب سائٹس پر ڈالے جنہیں ووٹر آسانی سے پڑھ سکتے تھے۔ اس طرح ایک روایتی معاشرے میں اس پیشرفت کو مثبت تجربہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب کی دو کروڑ دس لاکھ آبادی میں سے پندرہ لاکھ رجسٹرڈ ووٹر ہیں، ان میں ایک لاکھ انیس ہزار خواتین شامل ہیں۔
یہ سعودی خواتین پر مرحوم شاہ عبداللہ کا احسان ہے جنہوں نے چار سال قبل اعلان کیا تھا کہ خواتین 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے سکیں گی۔ سعودی عرب میں پہلے بلدیاتی انتخابات 2005ء میں ہوئے تھے جن میں صرف مردوں نے حصہ لیا تھا۔ اب بلدیاتی انتخابات میں خواتین کو نمائندگی ملنا بہت اہمیت کا حاصل ہے جنہیں بہت سی سماجی رکاوٹوں کے باوجود یہ حق دیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ اس سے سعودی عرب میں خواتین کے لئے مزید اصلاحات کے دروازے کھلیں گے۔