سنٹرل جیل ملتان اور ڈیرہ میں سزائے موت کے 3 مجرموں کو پھانسی
ملتان، مظفر گڑھ، شاہ جمال، میاں چنوں (وقائع نگار، نمائندہ پاکستان) سزائے موت کے 3مجرموں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، جبکہ مدعی کے معاف کرنے پر ایک قیدی کی پھانسی ٹل گئی، تفصیل کے مطابق سنٹرل جیل ڈیرہ غازیخان میں ایک جبکہ سنٹرل جیل ملتان میں سزائے موت کے 2قیدیوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ملتان کے رہائشی ایک مجرم کو پھانسی سے 2گھنٹے قبل مدعی نے معاف کر دیا۔ جس کے باعث اسکی پھانسی ٹل گئی۔ اس مرتبہ پھر جلاد کے بغیر کے بغیر پھانسیاں دی گئیں۔ جیل کے چاروں اطراف میں سیکورٹی کو ہائی الرٹ کیا گیا تھا۔ سنٹرل جیل ملتان کے ڈاکٹر شہزاد نے پھانسی پانیوالے دونوں مجرمان کی موت کی تصدیق کی۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پھانسی پانیوالے ایک مجرم کو ڈیتھ سیل سے جیل اہلکار سہارا دیکر پھانسی گھاٹ تک لائے۔ اس موقع پر وہ چیختا چلاتا رہااوراپنی زندگی کی بھیک مانگتا رہا۔ جبکہ دوسرا مجر بغیر سہارے پھانسی گھاٹ تک پہنچا۔ خانیوال کے رہائشی مجرم منظور حسین نے 2003میں اپنی بیوی اور سسر کو قتل کیا تھا۔ دونوں مجرمان کو پھانسی دینے کے بعد موت کی تصدیق ہونے کے بعد لاشوں کو ورثا کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ جبکہ تیسرا مجرم وحید جو ملتان کا رہائشی ہے۔ اس نے 1993میں اکرم کو فائرنگ کر کے قتل کیا تھا۔ لیکن گذشتہ روز مدعی مقدمہ نے وحید مجرم کو پھانسی لگنے سے 2گھنٹے پہلے معاف کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی پھانسی ٹل گئی۔ 28جون2003ء کو محمدطاہر نے جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ کے بھتیجے اور طارق بلوچ کے بیٹے خرم بلوچ کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا ،عدالت نے ملزم کو سزائے موت سنائی تھی۔ گزشتہ صبح ساڑھے6بجے محمد طاہر کو سنٹرل جیل ملتان میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور بعدازاں اس کی لاش مظفرگڑھ کے علاقے خورشید آباد میں اس کے گھر منتقل کردی گئی ،اس موقع پر کافی رقت آمیز مناظر نظر آئے اور محمد طاہر کے لواحقین اس کی لاش سے لپٹ کرروتے رہے ۔بعدازاں فیاض پارک میں محمد طاہر کی نماز جنازہ اداکی گئی جس میں مختلف سیاسی وسماجی شخصیات اور شہریوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔نمازجنازہ کے بعد طاہر کی لاش کو ایمبولینس کے ذریعے آبائی قبرستان شاہجمال منتقل کیا گیا اور آہیوں وسسکیوں کیساتھ دفنا دیا گیا۔ موضع بیٹ بیت والا کے محمد اقبال کو سنٹرل جیل ڈیرہ غازیخان میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ کوٹ چھٹہ کا رہائشی منظور حسین دوران ڈکیتی مزاحمت پر محمد اقبال کے ہاتھوں فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک ہوگیا تھا۔ جرم ثابت ہو جانے پر عدالتوں کی جانب سے مجرمان کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔ صدر مملکت سے اپیل مسترد ہونے اور صلح کی تمام کوششیں ناکام ہونے پر صبح 5:25پر سنٹرل جیل ڈیرہ غازیخان میں پھانسی دیدی گئی۔ محمد اقبال کی میت صبح 8بجے ان کے آبائی گاؤں بیٹ بیت والا میں لائی گئی۔ نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں اہل علاقہ نے شرکت کی۔ دونوں جنازوں میں دقت آمیز مناظر دیدی تھی۔ میتوں کے لواحقین زارو قطار رو اور جبکہ انہیں مائیں و دیگر خواتین بین کر رہی تھیں۔
پھانسی