سقوط ڈھاکہ کا ایک باب۔۔۔گمراہ کن پراپیگنڈہ
خواتین و حضرات!سقوط ڈھاکہ جہاں اپنے اندر بے شمار دکھ بھری داستانیں لئے ہوئے ہے،وہیں بہت ساگمرہ کن پراپیگنڈہ بھی زیبِ داستان کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ انہی مبالغہ آرائیوں میں مشرقی پاکستان میں پاک فوج کی جانب سے بنگالیوں پر ظلم و ستم کے من گھرٹ واقعات بھی بنگلہ دیش کے عوام اور دنیا کی نظر میں پاک فوج کوبدنام کرنے کے لئے گھڑے گئے۔بنگلہ دیش کے قیام کے وقت شیخ مجیب الرحمان پاکستان کی قید میں تھا، جسے غیر مشروط طور پر رہا کر دیا گیا۔
بنگلہ دیش بننے کے حوالے سے قتل و غارات کے مبالغہ آمیز اعداد و شمار پیش کئے گئے اور یہ تاثر دیا گیا کہ پاک فوج نے سات ماہ میں 35لاکھ بنگالیوں کا قتل عام کیا اور مشرقی پاکستان سے ایک کروڑ بنگالی بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اس کے علاوہ ساڑھے تین لاکھ بنگالی عورتوں پر زیادتی کا الزام بھی لگایا گیا، جو سراسر جھوٹ پر مبنی تھا۔ مجیب الرحمان 8جنوری 1972ء کو رہائی پا کر لندن پہنچا تو اس نے دعویٰ کیا کہ ’’بنگلہ دیش میں 10لاکھ انسان مارے گئے‘‘۔۔۔(دی ٹائمز، ڈیلی ٹیلی گراف، لندن ٹائمز اور ٹائمز آف انڈیا کی 9جنوری 1972ء کی اشاعت)۔۔۔ مگر 10جنوری کو ڈھاکہ کی سرزمین چھوتے ہی اس نے کہا کہ ’’35لاکھ بنگالی مارے گئے‘‘۔کچھ عرصے بعد اس نے اس تعداد میں کمی کر دی اور کہا کہ ’’30لاکھ افراد مارے گئے، اور 3لاکھ عورتوں سے ریپ کیا گیا‘‘۔
29جنوری1972ء کو مجیب الرحمان نے ایک بارہ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس کے سربراہ ڈی آئی جی پولیس عبدالرحیم تھے۔ کمیٹی میں سیاسی کارکن اور قانون دان بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی کے ذمہ مقتولین کی تعداد اور املاک کے نقصان کا جائزہ لینا تھا۔ کمیٹی نے اپنا کام آزادانہ طور پر کیا اور ایک ایک یونین کونسل اور پولیس اسٹیشن سے رابطہ کیا، کوائف جمع کئے اور انفرادی گواہیوں کو قلم بند کیا۔ مارچ 1972ء کے تیسرے ہفتے تک انکوائری کمیٹی کے سامنے صرف دو ہزار افراد کے قتل کی رپورٹیں پیش ہو سکیں۔۔۔( گارڈین لندن کی 6جون1972ء کی اشاعت)۔۔۔ بنگلہ دیش میں ان ساڑھے آٹھ ماہ کے دوران جاری بغاوت اور خانہ جنگی، بلوے، لوٹ مار اور گوریلا جنگ میں 56ہزار، 7سو 63افراد قتل ہونے کے ثبوت اکٹھے ہوئے۔’’ جب یہ رپورٹ وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کو پیش کی گئی تو وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ اس نے رپورٹ پکڑ کر فرش پر دے ماری اور غصے میں چلانے لگا کہ جب میں نے 30لاکھ کہے ہیں تو پھر یہی سچ ہے۔ یہ رپورٹ تم اپنے پاس رکھو‘‘۔۔۔ (گارڈین لندن 6جون 1972ء)۔ مجیب الرحمان نے مقتولین کی مدد کے لئے 2ہزار ٹکہفی کس کا اعلان کیا اور اس کے حصول کے لئے 72ہزار درخواستیں جمع کرائی گئیں، جن میں سے 50ہزار مقتولین کے لئے رقم حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا، جبکہ متعدد درخواستیں جعلی بھی تھیں‘‘۔۔۔ (گارڈین آگے چل کر لکھتا ہے) ۔
یہ بحث بعد کی آنے والی اسمبلیوں میں بھی جاری رہی۔ کرنل اکبر حسین نے جو جنرل ضیاء الرحمان اور خالدہ ضیا کے دور میں وزیر رہے تھے، اسمبلی میں بیان دیا کہ ’’بنگلہ دیش بننے کے بعد مجیب الرحمان حکومت نے اعلان کیا تھا کہ جس جس گھرانے کا کوئی بھی فرد جنگ میں مارا گیا یا لا پتہ ہوا وہ گھرانہ فرد کا نام پتہ بتا کر 2ہزار ٹکہ بطور امداد وصول کرلے۔ اس اپیل کے کئی ماہ گزر جانے کے بعد بنگلہ دیش بھر میں صرف3لاکھ افراد کے نام درج ہوئے۔ اگر 30لاکھ ہوتے تو لازماً نام بھی درج کراتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ باقی 27لاکھ کہاں گئے۔۔۔؟ اس پر پورے ایوان میں خاموشی چھا گئی۔ اسی طرح ساڑھے تین لاکھ بنگالی عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ڈرامہ بھی اس وقت فلاپ ہو گیا جب مجیب الرحمن نے ان عورتوں کو ’’بنگالی ہیرونز‘‘ قرار دیا اور ان کے لئے ’’بنگالی ہیرونز کمپلیکس‘‘ قائم کیا۔ اس کمپلیکس کا دورہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی کیا۔ یہ کمپلیکس ایک دن کے لئے بھی آباد نہ ہو سکا۔ چند ماہ بعد یہ کمپلیکس اور منصوبہ اچانک ختم کر دیا گیا۔ تحریک آزادی ہند کے معر وف رہنما اور بنگالی نژاد سبھاش چندر بوس کی بھتیجی پروفیسر ڈاکٹر شرمیلا بوس(ہاورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری یافتہ) جون 2005ء میں اپنے تحقیقی مکالے: ’’بنگلہ دیش کی جنگ میں عورتوں کا بطور ہتھیار استعمال‘‘ میں لکھتی ہیں:’’ ہمیں سچ بتانا چاہیے اور سچ یہ ہے کہ پاکستانی افواج پر بنگالی عورتوں کے اس پیمانے پر بے حرمتی کے الزامات مبالغہ آمیز اور بے بنیاد ہیں۔ پاکستانی فوج نے ایک منظم قوت کے طور پر اپنی ڈیوٹی انجام دی، جس میں عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا گیا ‘‘۔
1947ء میں مشرقی پاکستان سے آنے والے مسلمان جو آسام، یوپی اور سی پی ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے وہ روز اول سے دوسرے درجے کے شہری بنے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بہاری کہلاتے ہیں،انہوں نے 1971ء میں بہت برے دن دیکھے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے دوران ان کا بے دریغ قتل عام ہوا اور انہیں پاکستان سے محبت کی بہت کڑی سزائیں دی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو بولنے والے پاکستانیوں کو بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ بچ جانے والے بہاری وہاں اچھوتوں سے بھی بری زندگی گزار رہے ہیں۔ 1971ء میں ان پاکستانیوں پر جو قیامتیں ٹوٹیں، ان کا حال بیان کرتے ہوئے زبان بھی کانپتی ہے اور قلم بھی۔ کھلنا کا ضلع مکمل طور پر بنگالی غنڈوں اور مکتی باہنی کے قبضے میں تھا۔ 25مارچ1971ء سے پہلے کی کارروائی میں زیادہ تر مغربی پاکستان کے لوگ، پنجابی اور سوات اور سرحد کے پٹھان ہدف تھے، اس کے بعد کھلے عام قتل و غارت شروع ہو گیا اور جوبھی غیر بنگالی ملا، اسے ختم کردیا گیا۔ منظم قتلِ عام کی کارروائی پیپلز جیوٹ مل اورکریسنٹ جیوٹمل کے آثار وشواہد میں قابل دید تھی۔ مہاجر بستیوں کو ٹھکانے لگانے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی۔ یہاں باقاعدہ قتل گاہیں بنی ہوئی تھیں، جو تین قسم کی جھونپڑوں پر مشتمل تھیں، مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل کے لئے الگ الگ۔
بنگالیوں کی وہشت وظلم کی وہ مثالیں موجود ہیں کہ تاریخ میں ایسے اجتماعی قتل یوں منصوبہ بندی کے تحت کم ہی ہوئے ہوں گے۔ بہاریوں کے پورے گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔ برہمن باڑیہ میں عورتوں کی 300لاشیں ملیں، ایک بچے کا سر کاٹ کر کیل سے دیوار میں ٹانگ دیا گیا تھا۔ ان کے مرد پہلے ہی ذبح کر دیئے گئے تھے۔ میمن سنگھ میں بچوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے مردہ باپوں کی قبریں کھو دیں۔ چٹاگانگ میں ایسٹ پاکستان ریلوے کے سینئر ارکان کو ایک مذبح میں لے جا کر قتل کر دیا گیا۔ دیناج پور میں مغربی پاکستان کے کیپٹن اور فوج کے سپاہیوں کو اذیتیں دے کر قتل کیا گیا۔ فوجیوں کے بال بچوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔ میرپور اورمحمد پور ڈھاکہ کے علاقے میں بہاریوں کی بستی میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت ہوا۔ اسی علاقے میں مردوں کو قتل کرنے کے بعد عورتوں کو گھروں سے گھسیٹ کر نکالا گیا اور ان کا برہنہ جلوس نکالا گیا۔ پلٹن میدان ڈھاکہ میں آزادی کے جشن میں پاکستانی فوجیوں اور بہاریوں کے جسموں میں سوراخ کرکے اور اذیتیں دے دے کر قتل کیا گیا۔ رشید انور اپنی کتاب ’’سانحہ مشرقی پاکستان‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’سقوط ڈھاکہ کے بعد ان بے آسرا اور برباد بہنوں کا بہت ہی بُرا حشر ہوا جو مغربی بنگال کے قتل عام سے بچا کر ڈھاکہ لائی گئی تھیں۔ ان کے سرپرست شہید کر دیئے گئے تھے۔ ان کی تعداد ہزاروں میں تھی اور انہیں میرپور کے قریب فلیٹوں میں رکھا گیا۔ پاک فوج نے ان کی دیکھ بھال اور کھانے پینے کی ضروریات پوری کیں۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد جو افراتفری مچی تو ان خواتین کی اتنی بڑی تعداد کہاں جاتی۔ سقوط کے بعد مکتی باہنی کے غنڈے ان برباد حال بیواؤں اور بے کس یتیم لڑکیوں پر ٹوٹ پڑے۔عمر رسیدہ خواتین کو ہلاک کر دیا گیا، جبکہ جوان لڑکیوں کی بے حرمتی کے بعد بھارتی خریداروں کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا‘‘۔
3اور 4مارچ 1971ء کی درمیانی شب چٹاگانگ کی فیروزشاہ کوئلہ گراؤنڈ، جہاں اردو بولنے والے رہتے تھے، اسے عوامی لیگ کے کارکنوں نے چاروں طرف سے گھیر کر 700گھروں کو آگ لگا دی۔ جو بھی آگ سے بچنے کے لئے باہر نکلتا، اسے گولی مار دی جاتی۔ اس طرح صرف ایک ہی جگہ پر دو ہزار سے زیادہ افراد کو زندہ جلا دیا گیا۔ میمن سنگھ کی ایک مسجد میں پندرہ سو ایسی غیر بنگالی عورتوں نے پناہ لی ہوئی تھی جن کے شوہروں کو ذبح کرکے مارڈالا گیا تھا۔ ان عورتوں کو بھی اذیتیں دے کر بے آبرو کیا گیا اور بعدازاں قتل کر دیا گیا۔ بنگلہ دیش کے 1972ء کے دستور میں یہ تحفظ بھی لے لیا گیاکہ اس آزادی کی تحریک میں حصہ لیتے وقت ’’آزادی کے سپاہیوں‘‘ نے جو کچھ بھی کیا ہے، اسے کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ گویا ہر قسم کے قتل و غارت کے جرائم کو دستوری تحفظ اور عام معافی دے دی گئی۔ دکھ تو اس بات کا بھی ہے کہ اس المیے پر اس کے خلاف اور قتل ہونے والوں کی ہمدردی میں کہیں سے کوئی نحیف سی آواز بھی نہ ابھری۔
اس سے زیادہ اس بات کا رنج ہے کہ پاکستان کے سابق صدرپرویز مشرف نے اپنے دورۂ بنگلہ دیش میں وہاں کے لوگوں سے پاک فوج کی زیادتیوں پر معافی مانگی۔ اس کے علاوہ کسی این جی اواور وومن ایکشن فورم وغیرہ کے نمائندے جب بنگلہ دیش جاتے ہیں تو وہاں کی عورتوں پر پاک فوج کی جانب سے ڈھائے جانے والے نام نہاد ظلم پر معافی مانگتے ہیں۔ قابلِ تشویش اور قابلِ تفتیش بات ہے کہ کیا کبھی پاکستانی حکومتی نمائندوں، فلاحی اداروں اور خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں نے ان ہزاروں لاکھوں غیر بنگالی اور بہاری مردوں، عورتوں اور بچوں کے بارے میں بات کی، جنہیں محض پاکستانی ہونے، اردو بولنے اور غیربنگال ہونے کے جرم میں اذیتیں دے کر مار ڈالاگیا، عورتوں کی عزتیں پامال کی گئیں، ان کے برہنہ جلوس نکالے گئے؟ کیا کبھی بنگلہ دیش کی حکومت اور وہاں کی فلاحی تحریکوں اور عورتوں کے حقوق کی انجمنوں نے اس قتل و غارت پر کبھی معافی مانگی، کبھی مکتی باہنی کے ظلم و ستم پر ندامت کا اظہار کیا، بلکہ ابھی تک جماعت اسلامی کے بزرگ رہنماؤں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔۔۔ اور حکومت خاموش ہے۔