دو روزہ عالمی سیرت کانفرنس
وزارت مذہبی امور حکومت پاکستان ہر سال 12 ربیع الاول کو اسلام آباد کنونشن سنٹر میں سیرت کانفرنس کا انعقاد کرتی ہے اس سال وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کے حکم پر دو روزہ عالمی کانفرنس کا اہتمام لاہور میں کیا گیا دو روزہ عالمی سیرت کانفرنس کے مختلف سیشنز رکھے گئے تھے 11 ربیع الاول کو بادشاہی مسجد میں حسن قرأت کی تقریب کا اہتمام تھا جس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے قراء اکرام نے حصہ لیا دو روزہ عالمی سیرت کانفرنس میں 16 سے زائدممالک کے مندوبین کو دعوت دی گئی تھی ترکی کے صدر مذہبی امور ڈاکٹر مہمت گورمیز، مراکش، سعودی عرب، مصر، مالدیپ، لبنان، نائجیریا، انڈونیشیاء، بھارت، برطانیہ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک کے سکالر دانشور حضرات شامل تھے۔
11 ربیع الاول کی نمازمغرب کے بعد بادشاہی مسجد میں ہونے والے کوئز اور محفل حُسن قرأت کے لئے خوبصورت انتظامات کئے گئے تھے۔ حصہ لینے والے قراء حضرات کے لئے نقد انعامات کے علاوہ شیلڈیں بنائی گئی تھی 11 ربیع الاول کو ایک سیشن پی سی لاہور اسلامی تعلیمات اور قرآن کی روشنی میں رکھا گیا تھا جس کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف اور ترکی کے صدر مذہبی امور ڈاکٹر مہمنت گورمزتھے اس سیشن کی خوبی یہ تھی مختلف زبان بولنے والے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مسلم اور غیر مسلم سکالر موجود تھے وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا دو روزہ عالمی کانفرنس میں دنیا بھر کے نامور اہل علم شریک ہیں معروف اہل علم کا ایک جگہ جمع ہونا مذہب ہم آہنگی اور رواداری کے قیام کے لئے ایک کوشش ہے موجودہ حالات میں اس کی ضرورت بھی تھی مذاہب کے درمیان ہم آہنگی ہم سب کی ذمہ داربھی ہے اس طرح کی کاوشیں جاری رہیں گی صدر مذہبی امور ترکی ڈاکٹر مہمنت گورمز نے اس موقع پر کہا علامہ محمد اقبالؒ صرف آپ کے نہیں ہمارے بھی شاعر ہیں پاکستان اور ترکی جڑواں بھائی ہیں پاک ہند میں علماء ادیبوں، شعراء اور سیرت نگاروں کا کردار قابل ذکر ہے ہم نے ترکی میں اپنے لوگوں کی بیشتہ تحریروں کے اپنی زبان میں ترجمے شائع کئے ہیں انہوں نے کہا محمدؐ کی آمد پورے عالم میں رحمت بن کر آئی ہے آپ ؐ کی آمد کے موقع پر جس طرح پاکستان میں کانفرنسوں کا انعقاد ہوتا ہے اس طرح ترکی میں پورا ہفتہ تقریباًت جاری رہتی ہیں۔
اسلام نے 14 سو سال پہلے جو امن کا سبق دیا اور امن قائم کر کے دکھایا آج پھر اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے 11 ربیع الاول کو پی سی لاہور اور بادشاہی مسجد میں پروگرامات تھے پینل ڈسکشن رکھی گئی تھی جس میں چار گروپ تشکیل دیئے گئے تھے۔ سیرت کی کتب کا مقابلہ تھا سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی گئی کتب پر لاکھوں کے انعامات تھے سیرت رسولؐ پر مقالہ جات لکھنے کا مقابلہ تھا۔ انڈیا، بنگلہ دیش، ایران، ترکی، مصر کے قراء حضرات نے خوب محفل جمائی۔ 12 ربیع الاول کو پی سی لاہور میں دو روزہ عالمی سیرت کانفرنس کے آخری سیشن کے مہمان خصوصی وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف تھے۔
دو روزہ عالمی سیرت کانفرنس کے 12 ربیع الاول کو پی سی لاہور میں ہونے والے اہم سیشن کا آغاز قاری صداقت کی تلاوت کلام پاک سے ہوا خطبہ استقبالیہ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے دیا اور وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے 10 منٹ تک کے اسوہ حسنہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو نئی تہذیب آئی اللہ کے نبیؐ نے مکمل دین ایک ضابطہ حیات کی شکل میں دے دیا ہے۔
وزیر اعظم نے فرمایا میثاق مدینہ کی صورت میں پہلا آئین دیا گیا اسی آئین کی روشنی میں یک جہتی کی ضرورت ہے۔ اسلام امن بھائی چارے کا درس دیتا ہے انہی اصولوں پر عمل درآمد کی ضرورت ہے آخر میں وفاقی وزیر مملکت پیر امین الحسنات نے مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔
تاریخ ساز کانفرنس کا انعقادخوش آئند ہے مگر اس کے منفی پہلو بھی نظر انداز نہیں کئے جا سکتے یوم ولادت با سعادت کے موقع پر سیرت کانفرنس کا انعقاد اچھی اور خوبصورت روایت ہے مگر اس انداز میں شاہانہ اخراجات سمجھ سے باہر ہیں 9 ربیع الاول سے 13 ربیع الاول تک پی سی لاہور سمیت دیگر فائیو سٹار فور سٹار 3 سٹار اور 2 سٹار ہوٹل بک کروائے گئے تھے۔ وزارت مذہبی امور حج ونگ کے علاوہ تمام ونگر کے پورے پورے سٹاف نے لاہور میں ڈیرے لگا رکھے تھے۔ جن کو 4 سو روپے سے 34 سو روپے روزانہ کے حساب سے ٹی اے ڈی اے دیا گیا 16 ممالک سے درجنوں افراد کو بلایا گیا ان کو فائیو سٹار ہوٹل کی رہائش دی گئی جہاز کے ریٹرن ٹکٹ دیئے گئے۔
دو روزہ عالمی سیرت کانفرنس کے شرکاء کے لئے جاری ہونے والے دعوت ناموں کا بھی کوئی کرائی ٹیریا نظر نہیں آیا وزارت مذہبی امور کے زیادہ سٹاف کا تعلق کے پی کے سے ہے اس لئے سٹاف نے سیرت کانفرنس کے لئے اپنے تعلق والے علماء کرام اور دانشور حضرات کو خوش کیا اور انہیں دعوت نامے جاری کئے دلچسپ بات یہ ہے لاہور میں سیرت کانفرنس کا انعقاد ہوا لاہور کی کسی یونیورسٹی، کا لج یا صحافتی ادارے کے بڑے کو نہیں بلایا گیا اگر کہا جائے وسطیٰ پنجاب کے علاوہ ہر جگہ کی نمائندگی کی تھی۔ گلگت، سکردو کے لوگ موجود تھے لاہور کے نہیں تھے وزارت مذہبی امور کے سٹاف نے اپنی رشتے داریوں پر توجہ دی انہیں ٹکٹ بھی جاری کئے اورپی سی میں دوروز تک کھابے بھی کھلائے میڈیا کو بھی سرکاری سطح پر محدود رکھا گیا 11ربیع الاول کو تین سیشنز کی 12ربیع الاول کو کوریج نہ ہونے کے برابر رہی حالانکہ ایک ماہ سے وزارت مذہبی امور میں سیرت کانفرنس کی تیاری کے علاوہ کوئی کام نہیں ہو رہا تھا۔ سیرت رسول ؐ کا پیغام سنانے کے لئے محنت قابل ستائش اگر وزیر اعظم کی 10منٹ کی تقریر کے لئے کروڑوں خرچ کئے گئے ہیں تو یہ زیادتی ہے اس پر سوچنے کی ضرورت ہے وزارت مذہبی امور کے ایک ذمہ دار کا کہنا ہے سیرت کانفرنس پر 15کروڑ نہیں لگے جب میں نے کہا 10کروڑ لگے ہیں تو وہ چپ ہوگئے 10کروڑ سے غریب ملک کے عوام کے لئے بہت کچھ ہو سکتا ہے اگر کوئی کرنا چاہے تو۔ایک اور توجہ طلب بات سیرت کانفرنس کی کامیابی کے لئے دن رات ایک کرنے والے چھوٹے سٹاف کو پی سی میں ہونے والے آخری سیشن میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی لمحہ فکریہ ہے۔لاہور میزبان تھا درجنوں سیکیورٹی اہلکار ،ڈرائیور اور دیگر سٹاف حاجی کیمپ میں ٹھہرائے گئے تھے۔ ان کو صبح دوپہر شام کھانا فراہم کرنے والے حاجی کیمپ کے ڈائریکٹر سمیت کسی اہلکار کو بھی سیرت کانفرنس میں شرکت کا کارڈ جاری نہیں کیا گیا۔