معاشرے میں انتہا پسندی نے پریشانی اور بے چینی پیدا کر رکھی ہے
-
تجزیہ:چودھری خادم حسین
یہ بات بہت سے صاحب علم حضرات کہتے چلے آ رہے ہیں کہ پوری دنیا میں حالات کے گرداب کی وجہ سے برداشت میں کمی آ چکی اور دلیل کسی ہٹ دھرمی کے سامنے نہیں ٹکتی، اسی سے دنیا بھر میں بے چینی اور فسادات ہو رہے ہیں تو معاشروں میں بھی اختلافات دشمنی میں تبدیل ہو جاتے ہیں بلکہ اب تو ایک مسئلہ انتہا پسندی بھی ہے، یہ صرف ایک طرف نہیں ہر سو ہے اور دہشت گردی بھی تو اسی باعث تھی جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، اس یکطرفہ انتہا پسندی والی دہشت گردی کے باعث ریاستی درندگی اور دہشت گردی میں امتیاز نہیں کیا جاتا دنیا کو پاکستان میں دہشت گردی نظر آتی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں بھارتیوں اوراسرائیلیوں نے جو ریاستی دہشت گردی شروع کر رکھی ہے دنیا کی توجہ اس طرف نہیں ہوتی، اور یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا مسئلہ اوربڑی طاقتوں کے اپنے مفادات ہیں جو منصف ہونے کا دعویٰ کر کے بے انصافی کرتی ہیں اور ثابت ہو جانے پر شرمندہ بھی نہیں ہوتیں، بہت بڑی مثال عراق کی ہے جسے انسانیت سوز اسلحہ کے الزام میں تاراج کیا گیا اور اب وہاں امن نہیں ہو پا رہا بلکہ نواجی ریاستوں اور ممالک کو بھی خانہ جنگی نے لپیٹ میں لے رکھا ہے اور یہ وہ بات ہے جو ان حضرات کو سمجھ نہیں آتی جو اپنے عقائد کی بناء پر ’’جہاد‘‘ کررہے ہیں۔
ہمارے اپنے ملک میں پریشان کن صورت حال ہے، یہاں مسائل در مسائل ہیں اور ان کو حل نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے بے چینی بڑھتی ہے اور ناگوار صورت حال بھی پیدا ہوتی ہے، تازہ ترین المیہ ڈاکٹروں کی ہڑتال ہے، نوجوان ڈاکٹر پانچ چھ روز سے ہڑتال پر ہیں اور ان کی طرف سے آؤٹ ڈور حتیٰ کہ ایمر جنسی تک بند کر دی گئی ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں جانے والے مریض خوار ہورہے ہیں اور ان مسیحاؤں کو اپنے مفاد سے غرض ہے، ہماری صوبائی حکومت بھی ان کا علاج یا مسائل حل کرنے میں ناکام چلی آرہی ہے کہ ان کی ایجی ٹیشن دیر ینہ ہے اور تھوڑے تھوڑے عرصے بعد یہی ہوتا ہے کہ دونوں طرف سے انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، حالانکہ سرکار والا تبار کو یہ نوبت نہیں آنے دینا چاہیے تھی، ابھی تک مذاکرات کا کوئی سلسلہ نہیں، اب تو وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف بھی واپس آچکے اس لئے یہ معاملہ اب مستقل بنیادوں پر حل ہونا چاہیے۔
جہاں تک انتہا پسندی کا تعلق ہے تو وہ ہر شعبہ میں ہے لیکن مذہبی انتہا پسندی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہاں مسلک کے نام پر دوسروں کو مطعون کیا جاتا ہے، طے شدہ امر اور قانون ہونے کے باوجود قانون کو ہاتھ میں لیا جاتا ہے، حتیٰ کہ حضرت محمد مصطفی ؐ کی ذات کے حوالے سے بھی اپنا ہی موقف منوانے پر اصرار ہوتا ہے حالانکہ یہ تاریخ ہے اور حالات شاہد ہیں کہ جن فقہا کے فقہ کو مسلک بنالیا گیا وہ ایک دوسرے کے خیالات اور نظریات کا بہت احترام کرتے تھے کسی مسئلہ پر اختلاف بھی ہے تو وہ نہایت احترام سے دوسرے کا ادب کرتے اور بتاتے کہ وہ (فقہا) یہ بات کہتے ہیں جو تو ان کے نزدیک درست ہے تاہم میری اپنی رائے یہ ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں برداشت کا یہ کلچر عنقا ہو گیا ہے، دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ سوشل میڈیا کی بیماری کے باعث اس مرتبہ پہلی بار ذات اقدسؐ کے مکمل احترام کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا جشن میلاد النبیؐ اور عید میلاد النبیؐ کے حوالے سے بحث کی گئی اور پھر مسلکی اعتبار سے تاریخ پیدائش مصطفی ؐ پر جو معمولی اختلاف ہے اسے بھی اچھالنے کی کوشش کی گئی حالانکہ جو حضرات 9ربیع الاول اور جو 17ربیع الاول تسلیم کرتے ہیں ان کو بھی کسی نے کچھ نہیں کہا تاہم 12ربیع الاول مستند علماء کی اکثریت کے نزدیک درست ہے تو یہ سرکاری طور پر تسلیم کی گئی اور تمام ممالک میں 12ربیع الاول ہی کو ولادت کے طور پرجانا جاتا اور یہی دن منایا جاتا ہے، یہ اطمینان کی بات ہے کہ سوشل میڈیا پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ایسے حضرات کو باز رہنا چاہئے کہ ’’انپا مسلک چھوڑو نہ، دوسرے کے مسلک کو چھیڑو نہ‘‘ اللہ بھلا کرے گا۔
جہاں تک انتہا پسندی کا تعلق ہے تو یہ سیاست میں بھی بری طرح سرایت کر گئی ہے کہ اختلاف کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کردیا جاتا ہے حالانکہ قواعد، قانون اور آئین کے ساتھ روایات بھی موجود ہیں صرف قوت برداشت ہونا چاہئے ، ہمارے سیاسی رہنماؤں کو غور کرنا ہوگا کہ جب کوئی وفاداری تبدیل کر کے آپ کی طرف آتا ہے تو اس کے سارے ہی گناہ دھل جاتے اور وہ دودھ کا دھلا ہوتا ہے، محترم فرزند راولپنڈی جب مسلم لیگ (ن) کے وزیر اطلاعات و ثقافت تھے تو کیا فرماتے تھے اور آج وہ اسی قیادت کے حوالے سے کیا کہتے ہیں یہ بھی ریکارڈ ہے، دوسری طرف خود حکمران اور ان کے دوسرے مخالف بھی سنبھل کربات نہیں کرتے اور ان کے اندر بھی برداشت نہیں ہے، جمہوریت کو جمہوری انداز سے چلنے دیں، پارلیمنٹ میں شورو غوغا کوئی نئی بات تو نہیں لیکن کارروائی نہ چلنے دینا بات نہ سننا یہ غلط روائت ہے سب کو احساس کرنا ہوگا کہ اصل مسائل کیا اور ان کا حل کیا ہے، سب اپنے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے بھی اعتدال کا راستہ اختیار کریں تو مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں جو ریاستی دہشت گردی ہو رہی ہے اس پر بھی بات ہو رہی ہے اور یہ جو اللہ اور اسلام کے نام پر انتہا پسندانہ اقدامات کررہے ہیں ان کو بھی اللہ ہی کا خوف کرنا چاہئے کہ اس سے مسلمانوں کو نقصان ہوتا ہے جو اسلام ہی کا نقصان بنے گا۔